1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں خانہ جنگی جاری، شہری لکڑیاں جلانے پر مجبور

30 جنوری 2013

سردی کی شدت، ایندھن کی کمی اور بجلی کی غیرموجودگی کے باعث شام کے شمالی علاقوں میں مقامی افراد جنگلات سے لکڑیاں حاصل کر کے انہیں جلانے پر مجبور ہو گئے ہیں تاکہ سردی کی شدت سے بچا جا سکے۔

https://p.dw.com/p/17UF2
تصویر: Marine Olivesi

شام کا یہ شمالی جنگلا تی علاقہ کسی دور میں شام اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کے لوگوں کی سیاحت کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ ادلیب کے شمال سے مشرق تک پھیلا یہ سابقہ پرسٹائن نیشنل پارک اب ایک ’منظم تباہی‘ کا نشانہ ہے۔ خبر رساں ادارے AFP کے مطابق کسی وقت جنگلات سے اٹے اس علاقے میں اب کئی جگہ پر درختوں کا صفایا ہو چکا ہے اور مختلف مقامات پر لوگ زنجیروں والی خودکار آریوں کے ذریعے دھڑا دھڑ درخت کاٹنے اور ٹرکوں میں بھرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔

یہاں موجود درجنوں پک اپ ڈرائیوروں میں سے ایک حماد التوحید نے AFP سے بات چیت میں کہا، ’میرا جی بھر آتا ہے، جب میں درختوں کو کٹتے دیکھتا ہوں۔ مگر کوئی اور راستہ بھی نہیں۔ لوگوں کے پاس اس سردی سے بچنے کے لیے ان درختوں کو جلانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔‘

Fotoreportage von der Grenze zwischen Türkei und Syrien 3
کسی دور مین اسے شام کا سب سے خوبصورت علاقہ تصور کیا جاتا تھاتصویر: Gaia Anderson

دریائے عاصی کے کنارے آباد یہ علاقہ کبھی شام کا سب سے خوبصورت علاقہ قرار دیا جاتا تھا۔ دیہاتوں کو ملا تی بل کھاتی کم چوڑی سڑکیں اور یہاں لگے طرح طرح کے درخت اس پہاڑی علاقے کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کیا کرتے تھے۔

شام میں خانہ جنگی سے قبل اس علاقے کے جنگلات کو سرکاری تحفظ حاصل تھا۔ شام میں اس مقام کو دیا گیا سرکاری تحفظ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسے کس قدر قیمتی اثاثہ سمجھا جاتا تھا۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے ایک اندازے کے مطابق شام میں صرف ایک اعشاریہ چار فیصد حصہ جنگلات پر مبنی ہے، ایسے میں اس قدرتی جنگل کی اہمیت اور بھی زیادہ تصور کی جاتی تھی۔ تاہم شام میں جاری خانہ جنگی کی نتیجے میں وہاں ایندھن اور بجلی کی کمی کے مسائل کی وجہ سے ان ہرے بھرے پیڑوں کو کاٹ کر انہیں ایندھن کے بطور استعمال کرنے اور اپنے گھروں کے چولہے جلائے رکھنے کے علاوہ مقامی لوگوں کے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچا۔

AFP کے مطابق شام میں غذائی قلت اور روٹی کے حصول میں دشواری کا ایک بنیادی سبب ایندھن کی عدم موجودگی بھی ہے، اس صورتحال میں بھی لوگ ان لکڑیوں کے چولہوں کو روٹی پکانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق شام کے دوسرے علاقوں سے یہاں پہنچنے والا ایندھن بند ہو چکا ہے اور ترکی سے آنے والا تیل نہ صرف مہنگا ہے بلکہ اس کی کوالٹی بھی بہت بری ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ لکڑیوں کے استعمال پر مائل ہو رہے ہیں۔

ایندھن کی کمی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اب یہاں بچے بھی اپنے ہاتھوں میں کلہاڑیاں لیے لکڑیاں جمع کرتے اور درختوں کی شاخیں کاٹتے نظر آتے ہیں۔

توحید کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ کبھی اپنے جنگلات کی وجہ سے مشہور تھا مگر اب یہاں کا تقریبا ہر رہائشی درختوں کو کاٹ کاٹ کر گزر بسر کر رہا ہے۔ اے ایف پی کے مطابق دیگر کاروباری سرگرمیاں بند ہو جانے کے بعد اب مقامی رہائشی صرف اسی سرگرمی میں مصروف نظر آتے ہیں، جہاں خودکار آریوں کے حامل افراد پانچ ڈالر فی درخت کے حساب سے پیسے وصول کر رہے ہیں جبکہ ٹرک ڈرائیور 150 ڈالر فی ٹن کے حساب سے پیسے لیتے ہیں۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ماحول کو پہنچنے والے اس نقصان سے اچھی طرح واقف ہیں مگر گزشتہ 22 ماہ سے جاری اس حکومت مخالف تحریک اور خانہ جنگی نے ان کے پاس دوسرا کوئی راستہ چھوڑا ہی نہیں۔

at/zb (AFP)