شام میں سارین گیس استعمال کی گئی، جان کیری
2 ستمبر 2013خبر رساں ادارے اے ایف پی نے واشنگٹن سے موصولہ رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اکیس اگست کو دمشق کے نواحی علاقے غوطہ میں کیے گئے حملے کے فوری بعد انہیں انسانی بالوں اور خون کے جو نمونے ارسال کیے گئے تھے، ان کے مکمل تجزیے کے بعد یہ ثابت ہو گیا ہے کہ صدر اسد کی فورسز نے اس خونریز حملے میں سارین گیس کا استعمال کیا۔
جان کیری نے اتوار کے روز اراکین کانگریس پر بھی زور دیا کہ وہ صدر اسد کے خلاف محدود عسکری کارروائی کی حمایت کریں تاکہ دمشق حکومت کو آئندہ ایسے کسی بھی حملے سے باز رکھا جا سکے۔ کیری نے ٹیلی وژن ادارے این بی سی کے پروگرام ’میٹ دا پریس‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’جو نمونے امریکا کو مہیا کیے گئے تھے، ان کا تجزیہ مکمل ہو گیا ہے۔ بالوں اور خون کے ان نمونوں کے مفصل معائنے سے واضح ہو گیا ہے کہ سارین گیس استعمال کی گئی۔‘‘ تاہم کانگریس کے متعدد ارکان ابھی بھی شام کے خلاف امریکی عسکری کارروائی کے قائل نہیں ہیں۔
ادھر شامی صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ اگر امریکا شام پر حملہ کرتا ہے تو اسے ناکام بنا دیا جائے گا۔ لیکن نیوز ایجنسی اے ایف پی نے بتایا ہے کہ شامی فوج نے ممکنہ امریکی عسکری کارروائی کے پیش نظر اپنا جنگی ساز و سامان شہری علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔ شامی اپوزیشن کے بقول صدر اسد شہریوں کو ڈھال بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ شامی قیدیوں کو فوجی تنصیبات میں منتقل کر دیا گیا ہے جب کہ فوجی اہلکار اسلحے سمیت اسکولوں، یونیورسٹیوں، حکومتی دفاتر اور دیگر شہری مقامات پر تعینات کر دیے گئے ہیں۔
شامی سرکاری نیوز ایجنسی SANA نے صدر بشار الاسد کے حوالے سے بتایا ہے، ’’جیسا کہ شام داخلی سطح پر دہشت گردوں اور ان کا ساتھ دینے والوں کی جارحیت کا روزانہ بنیادوں پر مقابلہ کر رہا ہے، ویسے ہی وہ کسی بھی قسم کی بیرونی جارحیت کا سامنا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔‘‘
عرب لیگ کا مؤقف
عرب لیگ نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے لیے اسد حکومت کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ اور عالمی برداری سے مطالبہ کیا ہے کہ بشار الاسد کو سبق سکھانے کے لیے فوجی کارروائی کی جائے۔ اتوار کو قاہرہ میں منعقد ہوئے عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں کہا گیا کہ مستقبل میں اسد حکومت کو ایسے خطرناک ہتھیاروں کے استعمال سے باز رکھنے کے لیے اس کے خلاف فوجی کارروائی ضروری ہے۔ قبل ازیں شامی اپوزیشن نے عرب لیگ سے کہا تھا کہ وہ شام پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کے حملے کی حمایت کرے۔
عرب لیگ کے اجلاس کے موقع پر سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل کا کہنا تھا کہ اگر شامی صدر کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی تو وہ ’بہادر‘ ہو جائیں گے۔ عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں سعود الفیصل نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’شام میں بین الاقوامی فوجی مداخلت کی مخالفت کے نتیجے میں دمشق حکومت کو تقویت ملے گی کہ وہ اپنے جرائم کا سلسلہ جاری رکھے۔‘‘
ادھر ایرانی پارلیمان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ علاؤالدین بروجردی نے شام پر ممکنہ امریکی حملے کے خلاف خبردار کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسے کسی بھی حملے کی صورت میں امریکا کے اس خطے میں اپنے مفادات بھی خطرات سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
امریکی صدر باراک اوباما کہہ چکے ہیں کہ کیمیاوی ہتھیار استعمال کرنے پر صدر بشار الاسد کو سزا دینے کے لیے وہ شام پر حملے کا فیصلہ کر چکے ہیں تاہم اس کے لیے انہوں نے کانگریس سے اجازت مانگی ہے۔ امریکی کانگریس کا اجلاس نو ستمبر کو ہو گا، جس میں اس حوالے سے بحث کی جائے گی۔ بحیثیت مجموعی نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ داخلی سطح پر بھی اوباما کو شام پر حملے کے لیے تاحال کوئی مناسب حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔