1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی بچوں کی ايک نسل کو نفسياتی مسائل کا سامنا

عاصم سليم8 دسمبر 2015

بچوں کی ايک بين الاقوامی امدادی تنظيم نے خبردار کيا ہے کہ شورش زدہ ملک شام ميں ہر چوتھا شخص اور بالخصوص بچوں کو اپنی آنکھوں سے انتہائی تکليف دہ مناظر ديکھنے کے سبب ’تباہ کن‘ نفسياتی مسائل کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HJHb
تصویر: Hedinn Halldorsson/Save the Children

بچوں کے ليے سرگرم ايک امدادی تنظيم ’سيو دا چلڈرن‘ کی لبنان ميں قائم شاخ کے سربراہ اين روجرز نے کہا، ’’پوری کی پوری نسل کی ذہنی صحت پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہيں۔‘‘ روجرز نے يہ بيان منگل کے روز جاری کردہ اس ادارے کی ايک رپورٹ ميں ديا۔

اس رپورٹ ميں بتايا گيا ہے کہ شام ميں تقريباً ساڑھے چار برس سے جاری جنگ سے فرار ہونے والے بچوں کو درکار نفسياتی مدد رقوم کی عدم دستيابی کے سبب فراہم نہيں کی جا رہی۔ اس بارے ميں بات چيت کرتے ہوئے اين روجرز نے مزيد کہا، ’’ تکليف دہ اور پر تشدد مناظر ديکھنے سے نمودار ہونے والے واضح نفسياتی مسائل کے علاوہ نقل مکانی کرنے والے بچے جب ايک مختلف ماحول ميں پہنچتے ہيں، تو وہاں بھی انہيں بہت سی ايسی چيزوں کا سامنا رہتا ہے، جن کے ذہن پر کافی منفی اثرات مرتب ہوتے ہيں۔‘‘

’سيو دا چلڈرن‘ کی رپورٹ ميں انکشاف کيا گيا ہے کہ عراقی کردستان خطے ميں اس تنظيم کے پروگراموں ميں شرکت کرنے والے دس فيصد بچے اپنے والدين ميں سے کسی ايک نہ ايک کو کھو چکے ہيں۔ دريں اثناء لبنان ميں ايسے بچوں کی شرح جو تين برس سے اسکول نہيں جا سکے ہيں، کافی اونچی ہے۔ راجرز نے کہا، ’’بچوں کے ليے مہينوں يا سالوں کے ليے اسکول سے غير حاضر رہنا، گھروں ميں الجھن اور دباؤ کا شکار بننا، دوستوں اور رشتہ داروں سے دوری، قبل از وقت شادی اور کم وسائل والے علاقوں يا محلوں ميں رہائش، ان کی ذہنی اور جسمانی صحت پر شديد اثرات مرتب کرتی ہے۔‘‘ ’سيو دا چلڈرن‘ کے لبنان ميں ڈائريکٹر اين راجرز کے مطابق معمول کے مطابق روز مرہ کی زندگی جيسے کہ اسکول جانا اور ديگر گھريلو کام کاج بچوں کی نشونما کے ليے انتہائی اہم ہيں۔

Syrien Krieg IS Tel Abyad
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Suna

نوجوانوں يا ٹين ايجرز ميں ذہنی دباؤ خود کو نقصان پہنچانے اور خود کشی کرنے جيسے رجحانات کا سبب بنتا ہے۔ ادارے کے زير انتظام علاقوں ميں چند ايک واقعات ميں نوجوانوں نے ايسا کيا بھی ہے۔ اس کے علاوہ ديگر مسائل ميں بات چيت کرنے ميں دشواری، سننے يا ديکھنے کی صلاحيت ميں کمی اور بستروں ميں پيشاب کر دينے کی عادات نماياں ہيں۔

’سيو دا چلڈرن‘ سے وابستہ ايک نفسياتی ماہر ريم ناسری کہتی ہيں کہ ايسے مسائل کا علاج نہ کرنا بچوں اور نوجوانوں کی زندگيوں ميں بعد ازاں اثرات مرتب کر سکتا ہے اور بچوں کو جارحانہ اور افسردہ بنا سکتا ہے يا انہيں مختلف اقسام کے خوف ميں مبتلا کر سکتا ہے۔

شام ميں مارچ سن 2011 سے جاری خانہ جنگی کے سبب اب تک قريب ڈھائی افراد ہلاک اور چار ملين سے زائد بے گھر ہو چکے ہيں۔