1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شی جن پنگ کا تصور اب جامعات میں پڑھایا جائے گا

عاطف توقیر
30 اکتوبر 2017

چینی صدر شی جن پنگ کے ’خیالات‘ پر مبنی مضمون اب چین بھر کی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھایا جائے گا اور اس پر تحقیقی مقالے بھی لکھے جائیں گے۔ اس طرح چینی رہنما کے فلسفے کے مطابق ملک بھر کے طلبہ کے ذہن و دل فتح کیے جائیں گے۔

https://p.dw.com/p/2mkA7
China Symbolbild Xi Jinping und Mao
تصویر: Getty Images/AFP/G. Baker

چینی کی کمیونسٹ پارٹی کی 19ویں قومی کانگریس رواں ماہ منعقد ہوئی تھی، جس میں شی جن پنگ نے اپنا ’تصور‘ پیش کیا تھا اور اب اسے پارٹی کے دستور میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اسی تناظر میں کم از کم 20 جامعات میں شی کے نظریات کے لیے ریسرچ انسٹیٹیوٹ قائم کئے جا رہے ہیں۔

صدر شی کے نظریات اب چینی کمیونسٹ پارٹی کے آئین کا حصہ

تائیوان میں تحریک آزادی کچل دیں گے، چینی صدر کا انتباہ

’اپنے دوست صدر ٹرمپ کی آمد کا منتظر ہوں‘، چینی صدر

’ایک نئے عہد کے لیے شی جن پنگ کے چینی عناصر کے حامل سوشلزم سے متعلق خیالات‘ کے ساتھ ہی شی جن پنگ جدید چینی تاریخ میں اپنا نام ماؤ زے دونگ اور ڈینگ شیاؤپنگ جیسے رہنماؤں میں شامل کر چکے ہیں اور اگلی نسلیں انہیں اہم ترین چینی رہنماؤں میں سے ایک گردانیں گی۔

اتوار کو سامنے آنے والی میڈیا رپورٹوں کے مطابق تحقیقی ادارے ان خیالات میں چھپنے کی کوشش نہیں کریں گے بلکہ اس بات کی حمایت کریں گے کہ شی کے خیالات کو روز مرہ کی زندگی کا حصہ بنایا جائے۔

ہونان نارمل یونیورسٹی کے سربراہ جیانگ ہونگ شن کے مطابق، ’’ہم مختلف ماہرین اور پروفیسرز جمع کریں گے تاکہ شی جن پنگ کے چینی عناصر کے حامل سوشلزم سے متعلق خیالات کو کاروبار میں استعمال کرنے کی ترویج کی جا سکے۔‘‘

کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان سمجھے جانے والے پیپلز ڈیلی اخبار سے بات چیت میں ہونگ شن نے بتایا کہ ان کی جامعہ نے ’شی تھاٹس‘ کے نام سے ایک تحقیقی ادارہ قائم کر دیا ہے۔

خطے میں تبدیلیاں، پاکستان کا رجحان چین اور وسطی ایشیا کی جانب بڑھ رہا ہے

تیانجن یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے کمیونیسٹ یوتھ ونگ کے پارٹی سیکرٹری لیو یِنگ نے بتایا کہ ’شی کے نظریات‘ بارے ’تربیتی گروپ‘ بنانے کا خیال انہیں اس وقت آیا، جب شی جن پنگ کمیونسٹ پارٹی کانگریس سے خطاب کر رہے تھے۔ ’’یہ خیالات سمجھ کر طلبہ فقط ملک ہی کی بابت زیادہ پراعتماد نہیں ہوں گے بلکہ ان کی زندگیوں میں بھی اعتماد پیدا ہو گا۔ انہیں چینی ہونے پر زیادہ یقین آئے گا۔‘‘