1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان نے اسٹریٹیجک برتری حاصل کر لی ہے، امریکا

22 جولائی 2021

امریکی فوج کے سربراہ جنرل مارک ملی نے کہا ہے کہ طالبان کی جانب سے افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کرلینا خارج از امکان نہیں ہے تاہم وہ اب بھی مذاکرات سے مسئلے کا سیاسی حل نکل آنے کے تئیں پرامید ہیں۔

https://p.dw.com/p/3xobZ
USA US-General Mark Milley
امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملیتصویر: Erin Scott/REUTERS

امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے پینٹاگون میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کی جنگ میں بظاہر 'اسٹریٹیجک برتری‘ حاصل کرلی ہے۔ انہوں نے اہم شہروں پر اپنا دباو بڑھا دیا ہے اور آنے والے ہفتوں میں فیصلہ کن معرکہ کے لیے اسٹیج تیار ہوگیا ہے۔

جنرل مارک ملی کا کہنا تھا،”اب قوت ارادی اور افغان قیادت، افغان عوام، افغان سکیورٹی فورسیز اور افغان حکومت کا امتحان ہونے والا ہے۔"

کھیل ابھی ختم نہیں ہوا ہے

جنرل مارک ملی کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب امریکی فوج کا افغانستان سے انخلاء تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔ پینٹاگون کا کہنا ہے کہ 95 فیصد انخلاء ہوچکا ہے اور 31اگست تک امریکی فوج کا انخلاء مکمل ہوجائے گا۔ بائیڈن انتظامیہ نے تاہم اگست کے بعد بھی افغان فورسز کو مالی امداد اور لاجسٹک تعاون جاری رکھنے کا وعدہ کیا ہے۔

جنرل مارک ملی نے کہا کہ طالبان نے افغانستان میں 419 ڈسٹرک سینٹروں میں سے تقریباً نصف پر قبضہ کرلیا ہے اور حالانکہ وہ 34 صوبائی دارالحکومتوں میں سے کسی پر بھی ابھی قبضہ نہیں کرسکے ہیں لیکن ان میں سے تقریباً نصف پر ان کی جانب سے زبردست دباو ہے۔ طالبان کی جانب سے زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کو دیکھتے ہوئے افغان سکیورٹی فورسز اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانے پر توجہ دے رہی ہے تاکہ کابل سمیت دیگر علاقوں میں آبادیوں کی حفاظت کی جاسکے۔

جنرل ملی کا کہنا تھا،”پچھلے چھ، آٹھ، دس ماہ کے دوران طالبان نے قابل ذکر علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے اور وہ جس تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں وہ ایک طرح سے فیصلہ کن رفتار ہے۔"

افغان حکومت اور طالبان امن مذاکرات جاری رکھنے پر متفق

افغانستان: سفارتی مشنوں کی طالبان سے لڑائی روکنے کی اپیل

امریکی فوجی سربراہ نے کہا کہ طالبان حالانکہ یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ امریکا کی حمایت یافتہ کابل حکومت پر ان کی فتح ناگزیر ہوچکی ہے لیکن ”وہ سمجھتے ہیں کہ افغان فوج او رپولیس نے جو تربیت حاصل کی ہے اورجو اسلحے اس کے پاس ہیں ان کی بنیاد پر وہ مقابلہ کرسکتی ہیں۔" 

انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ مذاکرات سے سیاسی حل نکل آئے۔ لیکن وہ ”طالبان کی جانب سے مکمل قبضہ کرلینے" کو خارج از امکان قرار دیتے ہیں۔  جنرل ملی کا کہنا تھا،”میں نہیں سمجھتا کہ کھیل اب ختم ہو چکا ہے۔“

USA Hawaii | US-Verteidigungsminister Lloyd Austin beim US Pacific Command
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹنتصویر: Cindy Ellen Russel/Honolulu Star-Advertiser/AP/picture alliance

امریکی وزیر دفاع کا بیان

پریس کانفرنس میں موجود امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا کہ اب ہم افغانستان میں طالبان پر نہیں بلکہ دہشت گردی کے خطرات کا مقابلہ کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے۔

آسٹن کا کہنا تھا،”ہم القاعدہ پر نگاہ رکھیں گے، اس انتہاپسند نیٹ ورک پر جس نے افغانستان کو امریکا پر نائن الیون حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے ایک پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا اور جس کے بعد امریکا کو سن 2001 میں افغانستان پرچڑھائی کرنی پڑی۔"

امریکی وزیر دفاع نے کہا،”ہم سب سے زیادہ اس امر کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کر یں گے کہ افغانستان سے تشدد، دہشت گردی ہمارے ملک میں ایکسپورٹ نہ ہونے پائے۔ اس لیے ہم نہ صرف ان صلاحیتوں کو برقرار کھیں گے جو ان خطرات کو بھانپ لے بلکہ ان کے ابھرنے سے پہلے ان کا ازالہ کرسکے۔" 

طالبان امن چاہتے ہی نہیں، افغان صدر

طالبان 'مصالحت‘ کے لیے تیار ہیں، روس

Afghanistan | Taliban
طالبان نے افغانستان میں 419 ڈسٹرک سینٹروں میں سے تقریباً نصف پر قبضہ کرلیا ہےتصویر: Danish Siddiqui/REUTERS

انہوں نے یاد دلایا کہ طالبان نے سن 2020 میں وعدہ کیا تھا کہ وہ مستقبل میں القاعدہ کو محفوظ پناہ گاہ فراہم نہیں کر یں گے۔”ہمیں توقع ہے کہ وہ اپنے وعدوں کی پاسداری کریں گے۔ اگر وہ قانونی طورپر آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس پر ضرور غور کریں گے۔"

امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ امریکی افواج کے افغانستان سے انخلاء کے دو برس بعد القاعدہ کی جانب سے مغربی ملکوں پر حملے کرنے کا 'درمیانہ درجے‘ کا خطرہ ہے۔ لیکن بعض ایسی باتیں ہوسکتی ہیں جن سے اس کی رفتار تیز یا کسی حد تک سست پڑسکتی ہے۔

دریں اثنا عیدالاضحی کے موقع پر افغانستان میں فی الحال جنگ بند ہے حالانکہ طالبان نے جنگ بندی کا کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا تھا۔

ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)