1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کے ساتھ مغربی مذاکرات میں پاکستان اور بھارت ایک ساتھ

16 جون 2023

اوسلو میں ہونے والی ملاقات میں طالبان سے ان وعدوں کو پورا کرنے کو کہا گیا، جو انہوں نے عالمی برادری سے کیے ہیں۔ طالبان کے نمائندوں نے عالمی سفارت کاروں کے درمیان ہی بھارت اور پاکستان کے خصوصی نمائندوں سے بھی ملاقات کی۔

https://p.dw.com/p/4SegJ
Afghanische Delegation in Pakistan
تصویر: Pakistan Ministry of Foreign Affairs /AP/picture alliance

ناروے کی حکومت افغانستان سے متعلق اوسلو میں امن کانفرنس میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے تعطل کو توڑنے کی کوشش کر رہی تھی، جس میں مغربی ممالک کے سفارت کاروں کے ساتھ ہی بھارت اور پاکستان کے نمائندوں نے بھی ایک ساتھ طالبان سے ملاقات کی۔

’طالبان کے ساتھ تعطیلات‘: آسٹرین شہری افغانستان میں گرفتار

یہ پہلا موقع تھا جب طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے بھارت اور پاکستان کو کسی یورپی ملک میں مدعو کیا گیا ہو، حالانکہ دونوں ملک اس سے پہلے روس کی میزبانی میں ماسکو فارمیٹ اور قطر کی میزبانی میں دوحہ میں اسی طرح کی کوششوں کا حصہ رہ چکے ہیں۔

کیا طالبان اپنی حکومت کابل سے قندھار منتقل کرنا چاہتے ہیں؟

کن امور پر زور دیا گیا؟

میڈیا میں اس کانفرنس سے متعلق جو باتیں سامنے آئی ہیں اس کے مطابق اس کا مقصد افغانستان کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کرنا اور طالبان انتظامیہ پر اپنے وعدوں پر عمل کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا تھا۔

بدخشاں میں طالبان کے قائم مقام گورنر بھی خود کش حملے میں ہلاک

اجلاس کے شرکاء نے اتفاق رائے سے افغان طالبان پر ایک جامع حکومت تشکیل دینے، دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کرنے اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی اٹھانے جیسے موضوعات پر کھل کر بات کی۔

افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کا امدادی بجٹ ساڑھے چار کے بجائے تین بلین ڈالر

ناروے کی میزبانی میں 13 جون سے 15 جون تک ہونے والے اس تین روزہ اجلاس میں اقوام متحدہ، پاکستان، قطر، امریکہ، برطانیہ، بھارت اور کئی دیگر ممالک کے سفیروں نے افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ ملاقات میں پاکستان کی نمائندگی افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے آصف علی درانی نے کی۔

افغانستان میں جنگی جرائم کے الزامات: آسٹریلوی فوجی ہتک عزت کا مقدمہ ہار گیا

افغانستان کو الگ تھلگ رکھنا کسی کے مفاد میں نہیں

اوسلو میں سول سوسائٹی کے کارکنوں اور اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کے باوجود افغان طالبان کے دوسرے درجے کا وفد بھی وہاں پر موجود تھا۔ افغان ڈائسپورا گروپ سمیت انسانی حقوق کی کئی تنظیمیں اس میں طالبان کی شرکت کی مخالفت کر رہی تھیں۔ 

Afghanistan I Die Führung der Taliban
ناروے کے مطابق اب افغانستان کو الگ تھلگ رکھنا ہمارے لیے اور افغان عوام کے لیے بھی بدقسمتی کی بات ہو گی اور اس سے افغان عوام کی صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہےتصویر: Sefa Karacan/AA/picture alliance

تاہم ناروے کے وزیر خارجہ اینیکن ہیٹ فیلڈ نے مقامی میڈیا سے بات چیت میں اس بات کی تصدیق کی کہ اوسلو فورم میں افغانستان کے تین سرکاری عہدیدار موجود تھے ہیں اور کوئی ''اعلیٰ ترین قیادت اس میں شرکت نہیں کر رہی ہے۔'' ان کا کہنا تھا کہ اس میں ملک کے ''بڑے چیلنجوں '' کے بارے میں بات کی جا رہی تھی۔

ان کا کہنا تھا، ''اب افغانستان کو الگ تھلگ رکھنا ہمارے لیے اور افغان عوام کے لیے بھی بدقسمتی کی بات ہو گی۔ اس سے افغان عوام کی صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے اور یہ ملک میں آئی ایس (اسلامک اسٹیٹ) جیسے دہشت گرد گروہوں کی تعمیر کا باعث بن سکتی ہے۔''

 ناروے نے گزشتہ برس جنوری میں بھی افغان اسٹیک ہولڈرز کی میزبانی کی تھی۔ اس وقت افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی بھی کانفرنس میں شریک ہوئے تھے۔ تاہم اس بار افغان طالبان کی شرکت کو بظاہر کم کر دیا گیا کیونکہ سول سوسائٹی کے کارکنوں نے خدشات کا اظہار کیا تھا۔

ماضی کے برعکس اس بار پاکستان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے پہلے بین الاقوامی اتفاق رائے پر زور دے رہا ہے۔ واضح رہے کہ جب افغان طالبان پہلی بار اقتدار میں آئے تھے، تو اس وقت پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہی ایسے تین ممالک تھے جنہوں نے ان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔

افغانستان کے حوالے سے کئی امور پر بھارت اور پاکستان کے نکتہ نظر میں کافی اختلافات ہیں۔ نئی دہلی کے لیے تو طالبان کے افغانستان میں بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔

 تاہم اس کے باوجود نئی دہلی نے جون 2022 میں کابل میں اپنا مشن دوبارہ کھول دیا تھا اور وہاں امداد اور ترقیاتی اقدامات کی نگرانی کے لیے ایک ''تکنیکی ٹیم'' کو بھی برقرار رکھا ہے۔

بھارتی وزارت خارجہ کے حکام کی جانب سے اوسلو میں ہونے والی اس بات چیت پر ابھی تک کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔

ماہرین کے مطابق افغانستان میں بھارت کا بہت کچھ داو پر لگا ہوا ہے۔ بھارت وہاں مواصلاتی منصوبوں سے لے کر انرجی سکیورٹی اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے انسداد جیسے منصوبوں پر کام کر رہا تھا، جو اب سب ٹھپ پڑے ہیں۔

حال ہی میں بھارت نے 20,000 ٹن گندم کی تازہ ترین کھیپ افغانستان کی امداد کے لیے بھیجی ہے، جو اسی ہفتے ایران کی چابہار بندرگاہ کے راستے پہنچنے والی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کا بھارت نے سابقہ حکومت کے دوران افغانستان میں کافی سرمایہ کاری کی تھی، جس میں سے بیشتر پروجیکٹ غیر مکمل ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ ان کی تکمیل کے ساتھ ہی طالبان کے ساتھ بہتر روابط ضروری ہیں۔

ض ز/ ج (نیوز ایجنسیاں) 

طالبان سے لڑنے والی افغان خواتین کا غیر یقینی مستقبل