1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی مالیاتی بحران: بندگلی میں راستے کی تلاش

11 اکتوبر 2008

عالمی مالیاتی بحران کو حل کرنے کے سلسلے میں عدم استحکام کی ماری مالی منڈیاں حکومتی بیساکھیوں پر کھڑا ہونے کی کوشش میں ہیں۔ سوال یہ ہے کیا موجودہ فیصلے دیرپا ہوں گے یا نہیں۔

https://p.dw.com/p/FWyz
جرمن سٹاک مارکیٹ میں تیزی کا ایک منظر: گئے زمانوں کی بات تھیتصویر: AP

عالمی اقتصادی بحران کے سائے سن دو ہزار نو پر ہونے کا اشارہ عالمی مالیاتی ادارے کے اُس اعلان سے ظاہر ہو رہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ترقی کی شرح نمو تین فی صد رہنے کے امکان ہیں۔ تین فی صد ترقی کے امکان سے مراد سے ہے کہ ساری دنیا میں اقتصادی کساد بازاری کی فضا قائم ہو گی۔ سن اُنیس سو تیس کے اقتصادی ابتری کے بعد موجودہ مالیاتی بحران نے سرمایہ کاری کے اعتماد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

Logo IMF Internationaler Währungsfond
عالمی مالیاتی ادارے کا لوگو

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے بھی موجودہ بحران کا ذمہ دار کمزور اقتصادی اورریگولیٹری پالیسیاں ہیں۔ آئی ایم ایف کے سربراہ ڈومنیک سٹراس کہان نے مزید مربوط اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے اور اُن کے مطابق ایسے فیصلوں سے ہی بینکوں کی سلیٹ سے متاثرہ اثاثوں کو صاف کرنے اور سرمایہ کاروں کو تحفظ دینے کے ساتھ ساتھ افراطِ زر کا دباؤ کم کرنے سے ہی موجودہ مالی ابتری کی صورت حال بہتر بنائی جا سکے گی۔ اِسی مالیاتی بحران کے تناظر میں چین کی شرکت کو عالمی بینک کے صدر رابرٹ زوئلِک نے تعمیر قرار دیا ہے۔ عالمی بینک کے صدر کے مطابق تیس کے قریب ملک ایسے ہوں گے جن کو خصوصی امداد کی ضرورت پڑے گی۔

Dossier Weltbank Bild 2
عالمی بینک کی عمارتتصویر: picture-alliance/dpa

موجودہ عالمی اقتصادی کساد بازاری کے تناظر میں یورپی مرکزی بینک، سمیت چین، شمالی امریکہ، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، تائیوان اور ہانگ کانگ میں سودی شرح منافع میں کمی کی جا چکی ہے جس کے اب تک حوصلہ افزاء نتائج سامنے آئے ہیں۔

جاپان نے بھی مالیاتی منڈیوں کے اندر پیدا شدہ اقتصادی انتشار ختم کرنے کے لئے چالیس ارب ڈالر ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بدھ کے روز جاپانی سٹاک مارکیٹ میں انتہائی مندی غالب رہی اور یہ فضا جمعوات کو بھی دیکھنے میں آئی۔ دوسری جانب وزیر اعظم نے ملکی اقتصادیات کو بہتر اور توانائی بخشنے کے سلسلے میں مزید اقدامات اور پہلووں پر بھی سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔

US-Finanzministers Henry Paulson
امریکی وزیر خزانہ ہنری پالسنتصویر: AP

امریکی حکومت کی جانب سے بینکوں اور مالیاتی اداروں کو اتحکام دینے کے لئے سات ارب ڈالر بھی ناکافی دکھائی دے رہے ہیں۔ اِس کا اندازہ امریکی وزیر خزانہ ہنری پالسن کے تازہ بیان سے ہوتا ہے جس میں اُنہوں نے مزید بینکوں کے گرنے کا اشارہ دیا ہے۔

برطانوی وزیر اعظم گورڈن پراؤن کا یہ اعلان کہ غیر ذمہ دار بینکوں کے خلاف تادیبی کارروائی سے گریز نہیں کیا جائے گا، مالی بحران میں مبتلا دوسرے ملکوں۔ براؤن نے اِس غیر ذمہ داری کو ناشائستہ طرزِ عمل قراردیتے ہوئے اپنی خفگی کا اظہار کیا ہے۔ مالیاتی بحران پر قابو پانے کے لئے برطانوی وزیر خزانہ الیسٹئر ڈارلنگ عازمِ امریکہ ہیں۔

Großbritannien Finanzkrise Finanzminister Alistair Darling
برطانوی وزیر خزانو الیسٹئر ڈارلنگتصویر: AP

یورپی ملک یوکرائن نے بھی حکومت سے اپنی اندرونی کمزور پوزیشن کا احساس کرتے ہوئے مالی معاونت کی اپیل کی ہے۔ یوکرائن کے کُل پچیس بینک اپنی درخواستیں لئے حکومت کے دروازے پر کھڑے ہیں۔

یورپی ملک آئس لینڈ میں کمزور اقتصادی صورت حال کو دیکھتے ہوئے حکومت نے سب سے بڑے بینکKaupthing کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ تازہ ایکشن کے بعد تمام بڑے بینک اب حکومت کے ہاتھ میں ہیں اور سیونگ کھاتہ داروں کو بتایا گیا ہے کہ اُن کے اکاؤنٹ محفوظ ہیں۔

روس میں بھی مالی بحران کے اثرات پھیلنے کے بعد کچھ سیاسی پارٹیاں وزیر اعظم ولادی میر پوٹین سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ وزیر خزانہ الیکسی کدرین Alexei Kudrin کو برخاست کردیں۔

سودی شرح منافع میں کٹوتی اور حکومتی معاونت کے بعد آج ایشیائی اور یورپی مالیاتی منڈیوں میں مندی کی جگہ قدرے تیزی دیکھنے میں آئی جو سرمایہ کاروں کے چہروں پر مسکراہٹ پیدا کرنے میں کامیاب رہی۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اگلے ہفتوں کے دوران مزید شرح منافع میں کٹوتی ہو سکتی ہے۔

یہ تمام اقدامات بظاہر درست سمت اور بہتری پیدا کرنے کے لئے کئے جا رہے ہیں لیکن ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ جوں جوں مالیاتی بحران کی نئی جہتیں سامنے آئیں گی توں توں یہ تمام پیش بندیاں ناکافی ہوں گی۔ اُن کے خیال میں ابھی بحران کی تفصیلات نے کھل کر سامنے آنا ہے اور تبھی اندازہ ہو گا کہ مسئلے کا حجم کتنا ہے۔