1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی مالیاتی فنڈ سے معاہدے کا پاکستان کی شرح مبادلہ پر اثر

16 مئی 2019

جمعرات کو پاکستان میں شرح مبادلہ میں ایک بار پھر شدید اتار چڑھاؤ آیا۔ انٹربینک مارکیٹ میں کاروبار کے آغاز سے ہی امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں چھ روپے اکسٹھ پیسے کمی سامنے آئی۔

https://p.dw.com/p/3IcKw
Pakistan Wechselstube auf der Straße
تصویر: picture-alliance/epa/A. Gulfam

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ڈالر ایک سو اڑتالیس روپے کی بلند ترین سطح پر دیکھا گیا، ادھر اوپن مارکیٹ میں بھی ڈالر تین روپے اضافے سے ایک سو سینتالیس روپے کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا۔

پاکستان میں شرح تبادلہ میں اچانک پیدا ہونی والی ہیجان انگیز صورتحال سے جہاں سب ہی پریشان دکھائی دیے، وہیں مشیر خزانہ، چیئرمین ایف بی آر اور دیگر اعلیٰ حکام کراچی میں قائم گورنر ہاؤس میں سر جور کر بیٹھ گئے، حالانکہ وزیراعظم عمران خان عوامی اجتماعات میں متعدد بار عوام کو مخاطب کر کے کہہ چکے ہیں کہ گھبرانا نہیں، پاکستان معاشی بہتری کے راستے پر گامزن ہے۔

مرکزی بینک کے چیف مستعفی، بھارتی روپے کو شدید دھچکا

روپے کی قدر مزید کم، آئی ایم ایف کی شرائط ماننا پڑیں گی؟

اگرچہ گزشتہ روز اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں دو سے سوا دو روپے اضافے کے فورا بعد ہی وزیر اعظم عمران خان، گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر، مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ساتھ کرنسی ایکس چینجز کمپنیز کا اجلاس ہوا، جس میں ڈالر کی قیمت میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے طلب و رسد بہتر بنانے کا فیصلہ کیا گیا، اور اس طرح بدھ کو اوپن مارکیٹ میں کاروبار کا اختتام ایک سو تینتالیس روپے پچانوے پیسے پر ہوا۔  لیکن آج جب انٹربینک میں ٹریڈنگ کا آغاز ہوا تو ڈالر کی قیمت میں چھ روپے اکسٹھ پیسے کا نمایاں اضافہ ہوا۔ گویا مارکیٹ کے لیے گزشتہ روز ہونے والے اجلاس کے اثرات انٹربینک پر بالکل نہ پڑے۔

کرنسی مارکیٹ ایسوسی ایشن کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر اسد رضوی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’بظاہر تو ایسا محسوس ہورہا ہےکہ یہ سب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی ایما پر ہو رہاہے، کیونکہ پاکستان نے حال ہی میں آئی ایم ایف سے قرضے کا معاہدہ کیا ہے، جس میں آئی ایم ایف کی جانب سے روپے کی قدر میں پانچ فیصد کمی پر اصرار کیا گیا ہے، تو ایسا محسوس ہو رہا ہےکہ آج جو اچانک ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے تو یہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔‘‘

 انہوں نے مزید کہا، ’’جو صورتحال ہے اس کے پیش نظر لگ رہا ہے کہ روپے پر دباؤ برقرار رہے گا اور مستقبل میں ڈالر کی قیمت ایک سو پینتالیس سے ایک سو پچاس روپے کے لگ بھگ رہ سکتی ہے۔‘‘

یہ پہلی بار نہیں کہ پاکستان میں ایکس چینج ریٹ میں اچانک اضافہ ہوا ہو، بلکہ اس سے قبل بھی کئی بار ڈالر کی قیمت میں نمایاں اضافہ ہوتا رہا ہے، لیکن چھ روپے اکسٹھ پیسے کا اضافہ یقیناً اب تک ہونے والا اضافے میں سب سے زیادہ ہے۔ گزشتہ حکومت کے دور میں بھی ڈالر دس سے بیس فیصد مہنگا ہوا تھا، جبکہ نگراں دور حکومت میں بھی روپے کی قدر میں پانچ فیصد تک کمی ہوئی تھی، اور آج ایک بار پھر روپے کی قدر میں تقریباً پانچ فیصد کمی ہوئی ہے۔

انٹڑبینک میں آج سارا دن اتار چڑھاؤ کے بعد ڈالر کی قیمت میں پانچ روپے تیرہ پیسے اضافہ ریکارڈ کیا گیا اورکاروبار کے اختتام پر ڈالر ایک سو چھیالیس روپے باون پیسے پر بند ہوا۔

ممتاز اقتصادی ماہر ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے پاکستان کی مالی صورتحال اور شرح مبادلہ پر بات کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’امریکا ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہ رہا ہے، ابھی تو آئی ایم ایف نے قرضہ منظور بھی نہیں کیا ، لیکن روپے کو اس قدر ڈی ویلیو کردیا گیا۔‘‘

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے مزید کہا، ’’میں تو حیران ہوں کہ مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت بڑھتی رہی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان محض تماشائی بنارہا، ایسا محسوس ہو رہاہےکہ حکومت کے ہاتھ سے سب کچھ نکلتا جا رہا ہے، ڈالر مہنگا ہونے سے مہنگائی کا طوفان آئے گا، درآمدی بل بڑھ جائے گا، بجلی، گیس، پیٹرول سب مہنگا ہو جائے گا۔ اس سال بیرونی قرضوں میں دس ارب ڈالر اضافہ ہوا، جو کبھی نہیں ہوا، روپے کو سہارا دینے کے لیے اسٹیٹ بینک کو مارکیٹ میں مداخلت کرنا چاہیے۔‘‘

ڈالر کی قیمت میں اضافے سے جہاں درآمدات کی مالیت بڑھ جاتی ہے، وہیں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے کے نتیجے میں ہر چیز کے دام بڑھ جاتے ہیں، پاکستان میں اس وقت مہنگائی میں اضافے کی شرح 9 فیصد کے قریب ہے، جبکہ رواں مالی سال افراط زر کی شرح کا ہدف ساڑھے چھ سے ساڑھے سات فیصد ہے۔