1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق ميں جنگ سے جڑی ہلاکتوں کے تعداد نصف ملين، مطالعہ

عاصم سليم16 اکتوبر 2013

امريکا ميں جاری کردہ ايک مطالعے کے مطابق نسلی فسادات کے شکار ملک عراق ميں سن 2003 ميں شروع کيے جانے والے امريکی آپريشن سے لے کر اب تک قريب پانچ لاکھ افراد جنگ کے سبب اپنی جانيں کھو چکے ہيں۔

https://p.dw.com/p/1A0Py
تصویر: picture-alliance/dpa

منگل کے روز جاری کردہ اس نئے مطالعے ميں جنگ کے سبب ہلاک ہونے والوں کی تعداد نصف ملين کے لگ بھگ بتائی گئی ہے، جو برطانيہ ميں قائم گروپ ’عراق باڈی کاؤنٹ‘ کے اعداد و شمار سے کہيں زيادہ ہے۔ برطانوی گروپ نے عراق ميں قائم ہسپتالوں، مردہ خانوں اور ديگر سرکاری و غير سرکاری ذرائع سے جمع کردہ معلومات کے بعد ہلاک شدگان کی تعداد قريب ايک لاکھ پندرہ ہزار بتائی تھی۔ تاہم نئے مطالعے ميں اس جنگ زدہ ملک ميں سن 2003 سے سن 2011 کے وسط تک جنگ سے براہ راست طور پر ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ساتھ ايسی ہلاکتوں کو بھی شامل کيا گيا ہے جنہيں روکا جا سکتا تھا يا جن کا مسلح تصادم يا لڑائی سے براہ راست کوئی تعلق نہيں تھا۔

اس مطالعے ميں امريکا، کينيڈا اور عراق کی مختلف يونيورسٹيوں کے محققين نے حصہ ليا اور انہوں نے اعداد و شمار جمع کرنے کے ليے عراق کی وزارت صحت سے مدد لی۔ يونيورسٹی آف واشنگٹن سے تعلق رکھنے والی اس مطالعے کی مرکزی مصنفہ ايمی ہيگوپين کے بقول زيادہ تر اموات تشدد کے سبب ہوئيں اور ان ميں سے تقريبا ايک تہائی کا جنگ سے کوئی براہ راست تعلق نہيں تھا۔ انہوں نے نيوز ايجنسی اے ايف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’يہ تمام بالواسطہ اموات تھيں اور يہ اہم ہيں۔‘‘

عراق ميں عيد الاضحٰی پر بھی پر تشدد واقعات جاری
عراق ميں عيد الاضحٰی پر بھی پر تشدد واقعات جاریتصویر: Reuters

ہيگوپين کے مطابق اس مطالعے کا مقصد جنگ کے سبب پيدا ہونے والی صورت حال اور نقصانات کی درست تصوير کھينچنا ہے تاکہ حکومتيں مسلح کارروئياں شروع کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچيں۔ ہيگوپين نے کہا، ’’ميرے خيال ميں يہ اہم ہے کہ لوگ يہ بات سمجھيں کہ جنگيں شروع کرنے سے متاثرہ جگہوں کے عوام کی صحت پر کيسے اثرات مرتب ہوتے ہيں اور لوگ کن حالات ميں زندگی گزارتے ہيں۔ يہ ملک ہميشہ کے ليے تبديل ہو چکا ہے۔‘‘

مطالعے کے مطابق 2003ء سے 2011ء کے درميان ہونے والی اموات ميں سے ستر فيصد تشدد کے باعث ہوئيں۔ سب سے زيادہ ہلاکتيں گولياں لگنے سے ہوئيں اور اس کے بعد کار بم دھماکے اور پھر ديگر دھماکے اموات کا سبب بنے۔ مطالعے ميں کوليشن فورس کو پينتيس فيصد اموات کا ذمہ دار قرار ديا گيا ہے جب کہ مقامی مليشيا گروپوں کو بتيس فيصد ہلاکتوں کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ اکيس فيصد اموات کی وجوہات واضح نہيں جب کہ گيارہ فيصد لوگوں کو جرائم پيشہ افراد نے اور ايک فيصد لوگ عراقی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔

عيد الاضحٰی پر بھی پر تشدد واقعات جاری

دريں اثناء عراقی شہر کرکوک ميں منگل کے روز ايک سنی مسجد کے باہر ہونے والے بم دھماکے ميں کم از کم گيارہ افراد مارے گئے جب کہ بائيس کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہيں۔ يہ دھماکا اس وقت ہوا جب نمازی عيد الاضحٰی کی نماز ادا کرنے کے بعد مسجد سے باہر نکل رہے تھے۔

اسی دوران دارالحکومت بغداد سے ايک سو پچاس کلوميٹر شمال مشرق ميں واقع شہر خنقين ميں ايک ہوٹل ميں ہونے والے دھماکے کے سبب تين شہری ہلاک اور نو زخمی ہوگئے۔ اسی طرح ابارہ نامی شہر ميں ايک چيک پوائنٹ پر ہونے والے دھماکے ميں تين سکيورٹی اہلکار لقمہ اجل بنے۔

عراق ميں پچھلے چند مہينوں کے دوران پر تشدد واقعات ميں اضافہ ريکارڈ کيا گيا ہے، جس سے يہ خدشات بڑھ رہے ہيں کہ يہ ملک دوبارہ 2006ء اور 2007ء ميں وہاں ہونے والی فرقہ ورانہ فسادات کی طرف نہ بڑھ جائے۔ اقوام متحدہ کے مطابق رواں سال ستمبر ميں عراق ميں مختلف پر تشدد واقعات ميں کل 979 لوگ مارے گئے۔ يہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران سب سے خونريز مہينہ تھا۔