1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق ميں شدت پسندوں کی پيش قدمی کے شام پر اثرات

عاصم سليم22 جون 2014

شامی خانہ جنگی ميں صدر بشار الاسد کی افواج کے شانہ بشانہ لڑنے والے ہزاروں عراقی شيعہ جنگجو ان دنوں واپس اپنے وطن لوٹ رہے ہيں، جس سے دمشق حکومت کے سرکاری دستوں پر عسکری دباؤ میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CNlv
تصویر: picture-alliance/abaca

نيوز ايجنسی ايسوسی ايٹڈ پريس کی بيروت سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق عراق اور شام ميں سرگرم سنی شدت پسند تنظيم ’اسلامی رياست برائے عراق و شام‘ کے جنگجو دونوں ممالک کے درميان موجود سرحد کا بالکل ہی خيال نہيں کرتے۔ يہ سنی انتہا پسند رقوم کے علاوہ ہتھيار اور ديگر عسکری ساز و سامان ايک ملک سے دوسرے ملک میں بلا رکاوٹ اور باآسانی منتقل کرتے ہيں۔ ان جنگجوؤں کی جانب سے دو مختلف ممالک کے درميان بين الاقوامی سرحد کے اس قدر آسانی سے عبور کیے جانے کا عمل خطے ميں جاری لڑائی ميں طاقت کا توازن ايک طرف سے دوسری طرف دھکيل سکتا ہے۔

صدر بشار الاسد
صدر بشار الاسدتصویر: picture-alliance/dpa

دريں اثناء عراق ميں اسلامی رياست برائے عراق و شام کی پيش قدمی اور کئی شہروں پر قبضے سے صدر اسد کے موقف کو تقويت حاصل ہوتی ہے۔ صدر اسد شام ميں مارچ 2011ء سے جاری حکومت مخالف مسلح تحريک کے آغاز ہی سے يہ کہتے آئے ہيں کہ ان کے خلاف تحريک بيرونی ممالک کے حمايت يافتہ انتہا پسند چلا رہے ہيں۔ شامی صدر اپنا يہ موقف دہراتے آئے ہيں کہ شام ميں جہاديوں اور ديگر انتہا پسندوں سے نمٹنے کے ليے مغربی ممالک کو انہی کی حمايت يافتہ، منقسم اور کمزور لیکن اعتدال پسند اپوزيشن کی بجائے اسد انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہيے۔

شامی صدر اسد اب اس پيش رفت سے ممکنہ طور پر خوش ہوں گے کہ امريکی انتظاميہ عراق ميں سنی شدت پسندوں کے خلاف فضائی حملوں پر غور کر رہی ہے۔ تاہم اس ممکنہ اقدام کے نتيجے ميں شامی خانہ جنگی ميں گزشتہ کچھ مہينوں سے دمشق حکومت کی پوزيشن ميں جو بہتری آئی ہے، اسے بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہيں۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ شامی حکومت اکثريتی طور پر سنی مسلمانوں کی حکومت مخالف تحريک کے خلاف جاری کارروائی کے ليے غير ملکيوں پر کافی انحصار کرتی ہے۔ ان ميں لبنان کی شيعہ تنظيم حزب اللہ کے جنگجو، ايرانی پاسداران انقلاب کے عسکری مشير اور عراقی مليشيا گروپوں کے ايسے ہزاروں ارکان شامل ہيں، جو شام ميں جاری حکومت مخالف تحريک کو خطے ميں شيعہ قوتوں کے خلاف کارروائی قرار ديتے ہوئے دمشق کے دفاع کے ليے لڑنے آتے ہيں۔

کئی مبصر عراقی بحران کو وزير اعظم نوری المالکی کی پاليسيوں کا نتيجہ قرار ديتے ہيں
کئی مبصر عراقی بحران کو وزير اعظم نوری المالکی کی پاليسيوں کا نتيجہ قرار ديتے ہيںتصویر: picture-alliance/dpa

مختلف اندازوں کے مطابق شام ميں سرگرم عراقی شيعہ جنگجوؤں کی تعداد بيس سے تيس ہزار کے درميان ہے۔ يہ جنگجو دارالحکومت دمشق کے نواح ميں سرکاری دستوں کے شانہ بشانہ لڑتے آئے ہيں۔ تاہم اب يہ فائٹر عراق ميں اسلامی رياست برائے عراق و شام کی حاليہ وسیع تر پيش قدمی کے سبب واپس اپنے ملک کا رخ کر رہے ہيں تاکہ وہاں جا کر لڑ سکيں۔ شامی اپوزيشن کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان کے باغيوں نے عراقی جنگجوؤں کی واپسی سے پيدا ہونے والے خلا کا فائدہ اٹھانا شروع کر ديا ہے۔

امريکی دارالحکومت واشنگٹن ميں قائم مڈل ايسٹ انسٹيٹيوٹ کے ڈائريکٹر Randa Slim کہتے ہيں کہ عراق ميں ہونے والی پيش رفت شامی صدر کے ليے دو دھاری تلوار کے برابر ہے۔ ايک طرف عراق ميں شدت پسندوں کی کارروائيوں سے اسد کے موقف کی تائيد ہوتی ہے، تو دوسری جانب ISIL کی عسکری فتوحات سے یہ دعوے غلط ثابت ہوتے ہيں کہ دمشق حکومت باغيوں يا شدت پسندوں کے خلاف کاميابیاں حاصل کر رہی ہے۔

يہ تمام صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ شام اور عراق کے تنازعات کس طرح ايک دوسرے سے جڑے ہوئے ہيں۔ کئی سياسی مبصرين کا يہ بھی کہنا ہے کہ عراقی بحران کے سبب ايران پر بھی شديد دباؤ ہے۔ لبنان کے ايک روزنامے ميں کالم نگار کی حيثيت سے کام کرنے والے سلیمان تقی الدین لکھتے ہيں، ’’طويل مدت کے ليے مختلف محاذوں پر جنگ لڑنے کی ايران کی معاشی، عسکری اور سياسی صلاحيت کے حوالے سے کئی شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہيں۔‘‘