1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عنان مشن شام کے لیے آخری موقع ہو سکتا ہے، روس

26 مارچ 2012

روس نے شام کے لیے بین الاقوامی مندوب کوفی عنان کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے۔ روس کے صدر دیمتری میدویدیف نے کہا ہے کہ عنان مشن شام کے بحران کے حل کے لیے آخری موقع ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/14S13
کوفی عنان اور دیمتری میدویدیفتصویر: Reuters

شام کے لیے عرب لیگ اور اقوام متحدہ کے مندوب کوفی عنان نے اتوار کو ماسکو ایئرپورٹ پر روس کے صدر دیمتری میدویدیف سے ملاقات کی۔ اس موقع پر میدویدیف نے کہا: ’’کبھی نہ ختم ہونے والی اور بدترین خانہ جنگی سے بچنے کے لیے شام کے لیے یہ آخری موقع ہو سکتا ہے۔‘‘

انہوں نے عنان سے ’ہر سطح پر بھرپور معاونت‘ کا وعدہ کیا۔ انہوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ عنان کی کوششوں کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔

اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کا کہنا تھا کہ شام میں خون خرابہ رکوانے کے لیے انہیں روس کی حمایت درکار ہے۔

اپنے مشن سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا: ’’شام کے پاس آج میرے ساتھ کام کرنے اور اس ثالثی عمل میں شامل ہونے کا موقع ہے تاکہ تنازعہ ختم کیا جائے، لڑائی روکی جائے، ضرورت مندوں تک امداد پہنچانے کی فراہمی اور ایسا سیاسی عمل شروع کیا جائے جو امن کا محرک بنے۔‘‘

Syrien Bürgerkrieg Regierungstruppen beschießen Idlib Flüchtlinge
شام کے مختلف شہروں میں لڑائی جاری ہےتصویر: dapd

اس ملاقات میں کوفی عنان اور دیمتری میدویدیف نے شام کے صدر بشار الاسد کا حوالہ نہیں دیا، جن سے وہاں کی اپوزیشن اقتدار سے علیحدہ ہونے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ ماسکو حکومت عنان کے امن منصوبے کے تحت بشار الاسد پر دباؤ ڈالے گی یا نہیں۔ اس امن منصوبے میں جنگ بندی، رہائشی علاقوں سے فوج کا فوری انخلاء اور امدادی کارکنوں کی رسائی کے مطالبے شامل ہیں۔

پیر کو کوفی عنان کی چین روانگی متوقع ہے۔ روس اور چین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مغربی حمایت سے پیش کی گئی دو قراردادوں کو ویٹو کر چکے ہیں، جن کے مسودے میں بشارالاسد کی مذمت کی گئی تھی۔ تاہم انہوں نے گزشتہ ہفتے سلامتی کونسل کے ایک اعلامیے کی منظوری دیتے ہوئے عنان کے مشن کی توثیق کی۔

دوسری جانب شام میں حکومت مخالف ذرائع کے مطابق حمص سمیت مختلف علاقوں میں سکیورٹی فورسز اور باغیوں کے درمیان اتوار کو ہونے والی جھڑپوں میں 27 افراد ہلاک ہوئے، جن میں پندرہ شہری تھے۔ روئٹرز کے مطابق سرکاری ذرائع ابلاغ نے کہا کہ چھ ’دہشت گرد‘ مارے گئے۔

رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے

ادارت: افسر اعوان