1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غیرملکی افواج کے انخلاء کے بعد افغان خواتین کا مستقبل؟

29 اپریل 2021

امریکی قانون سازوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر طالبان نے افغانستان میں حکومت سنبھال لی تو سول سوسائٹی کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت متاثر ہو گی اور خواتین کے حقوق ختم ہو جائیں گے۔

https://p.dw.com/p/3siL5
Afghanistan Parkanlage für Frauen in Kabul
تصویر: Getty Images/AFP/A. Berry

اس دوران امریکی افواج کے جوائنٹ چیف کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے کہا ہے کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان کے مستقبل کی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں ہے۔

امریکی قانون سازوں نے صدر جو بائیڈن کے خصوصی ایلچی برائے افغان امن زلمے خلیل زاد سے منگل کے روز کئی سخت سوالات پوچھے اور افغانستان سے فوجی انخلاء کے بعد ملک میں خواتین کے مستقبل کے حوالے سے خدشات ظاہر کیے۔ اراکین کا کہنا تھا کہ امریکی افواج کے انخلاء کے بعد اگر سخت گیر اسلام پسند طالبان نے اقتدار اپنے کنٹرول میں لے لیا توانسانی حقوق کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کو زبردست دھچکا لگے گا۔

امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین باب مینینڈیز کا کہنا تھا”اگر طالبان نے حکومت سنبھال لی تو سول سوسائٹی کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت ختم ہوجائے گی اور خواتین کے حقوق ختم ہوجائیں گے۔" انہوں نے اس صورت میں افغانستان کو مالی امداد روکنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا”اگر ایسا ہوا تومجھے یقین نہیں ہے کہ افغانستان کو کسی صورت امریکا کی مدد حاصل ہوگی بالخصوص عالمی بینک کے بجٹ سپورٹ پروگرام میں کوئی معاونت نہیں ہوگی۔“

دو دہائی تک افغانستان میں جنگ کے بعد امریکی افواج کی گیارہ ستمبرسے قبل انخلاء کے متعلق صدر جو بائیڈن کے اعلان کے بعد افغان مفاہمت اور امن کے لیے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے منگل کے روز پہلی مرتبہ امریکی کانگریس کی کمیٹی کا سامنا کیا۔

افغان خواتین کی جیت

انسانی حقوق کے تئیں خدشات

امریکی سینیٹ میں دونوں سیاسی جماعتوں کے اراکین نے افغانستان میں انسانی حقوق اور ممکنہ خانہ جنگی کے حوالے سے تشویش کا اظہا ر کیا اور کہا کہ یہ جنگ زدہ ملک ایک بار پھر انتہاپسندوں کی پناہ گاہ بن سکتا ہے۔

امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی میں شامل ریپبلیکن کے اہم سینیٹر جم رش کا کہنا تھا”مجھے خدشہ ہے کہ انتظامیہ کے اس فیصلے سے طالبان کو جارحیت سے حکومت گرانے کا موقع مل سکتا ہے۔

ڈیموکریٹ سینیٹر جین شاہین نے بھی کہا کہ خواتین کو ترجیح دینے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ گیارہ ستمبر کے بعد افغان منصوبے کے حوالے سے اس بات پر بہت زیادہ غیر یقینی ہے کہ خواتین کے حقوق کو تحفظ ملے گا یا نہیں، افغانستان میں خواتین بدستور کشیدگی کا شکار ہیں جس کو ختم ہونا چاہیے۔ انہوں نے ان سات خواتین کا ذکر کیا جنہیں انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی پاداش میں طالبان نے قتل کر دیا تھا۔

شاہین کا کہنا تھا”میں طالبان کو بغیر کسی احتساب کے خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کی اجازت دینے کی حمایت نہیں کروں گی۔‘

زلمے خلیل زاد نے اپنے جواب میں کہا کہ امریکا نے مستقبل میں خواتین اور اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے اقدامات کو امن مذاکرات میں شامل کیا ہے اور معاہدے سے روگردانی کی صورت میں امریکا اور اتحادی ممالک افغانستان پر پابندیاں عائد کردیں گے۔

کابل کی خودکفیل خواتین

پیش گوئی ممکن نہیں

امریکی جوائنٹ چیفس کے چیئرمین مارک ملی نے کہا ہے کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان کے مستقبل کی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق  جنرل ملی نے کہا کہ انخلا کے بعد جو کچھ ہوتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس کے نتائج کی ایک حد ہے، جن میں سے کچھ کافی خراب ہیں اور کچھ بالکل خراب نہیں ہیں۔

جنرل ملی نے مزید کہا”بدترین صورت حال، حکومت کا ممکنہ گرنا ہے، فوج کا ممکنہ خاتمہ ہے۔ خانہ جنگی ہو سکتی ہے اوراس  کے ساتھ ہونے والی تمام انسانی تباہی ہو سکتی ہے۔ اس میں 11 ستمبر کے حملوں کے پیچھے جہادی گروپ القاعدہ کی بحالی بھی شامل ہو سکتی ہے جو 2001 میں امریکہ کی قیادت میں ملک پر اصل حملے کا نشانہ تھا۔"

جنرل ملی کا کہنا تھا کہ پینٹاگون دو ہفتے قبل صدر جو بائیڈن کی جانب سے اعلان کردہ فیصلے کے تحت ستمبر تک اپنی آخری 2500 سے زائد افواج واپس بلا لے گا تاکہ وہاں دو دہائیوں سے جاری امریکی فوج کی موجودگی کو ختم کیا جا سکے۔

 ج ا/ ص ز  (روئٹرز، اے ایف پی)

افغانستان میں طالبان کی قیادت میں زندگی کیسی ؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں