1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فائز عیسیٰ کے خلاف کارروائی بدنیتی پر مبنی ہے، وکلاء

8 جون 2019

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کیے گئے صدارتی ریفرنس کے خلاف وکلاء میں غم و غصہ حکومت مخالف احتجاجی تحریک میں بدل سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3K4on
Qazi Faez Isa
تصویر: Supreme Court of Pakistan

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کیے گئے صدارتی ریفرنس کے خلاف پاکستان بھر کے وکلاء چودہ جون سے  احتجاجی دھرنوں کا آغاز کر رہے ہیں۔ ان مظاہروں کا پہلا دھرنا سپریم کورٹ کی عمارت کے اندر جبکہ دوسرا دھرنا بلوچستان ہائی کورٹ کی عمارت میں دیا جائے گا۔ کوئٹہ میں جمعے کے روز بار کونسل کے رہنماؤں نے اعلان کیا کہ یہ دھرنے اس وقت تک جاری رہیں گے، جب تک حکومت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس واپس نہیں لے لیتی۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج ہیں اور مستقبل میں ملک کے چیف جسٹس بھی بن سکتے ہیں۔ جسٹس عیسیٰ سن دو ہزار نو میں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تعینات کیے گئے تھے۔ ان کے خاندان کا شمار ان خاندانوں میں کیا جاتا ہے، جنہوں نے پاکستان کی آزادی کی تحریک میں بھی ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

صدر عارف علوی کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجے گئے ریفرنس میں جستس قاضی فائز عیسیٰ پر بیرون ملک اثاثوں کے حوالے سے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل دو سو نو کے تحت کارروائی کی درخواست کی گئی ہے۔ لیکن پاکستان میں وکلاء اس ریفرنس کو عدلیہ کی آزادی پر ایک اور حملے سے تعبیر کر رہے ہیں۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضیٰ ایڈوکیٹ کے بقول قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف حکومتی ریفرنس بنیادی طور پر بدنیتی پر مبنی ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

SCBA Präsident Amanullah Kinrani
امان اللہ کنرانی (درمیان میں) کا کہنا تھا کہ آئین کا تقدس سب کی اولین ترجیح ہونی چاہیے لیکن حکومت بلا وجہ عدلیہ کے وقار سے کھیل رہی ہےتصویر: DW/A. G. Kakar

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک مخلص اور اچھے کردار کے حامل جج ہیں۔ ان کے حوالے سے حکومت نے، جو موقف اختیار کیا ہے، وہ حقائق کے برعکس ہے۔ اس ریفرنس میں اعلیٰ عدلیہ کی عزت اور تکریم کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کے اس ریفرنس سے قبل قاضی فائز عیسیٰ سے الزامات کے حوالے سے بذریعہ رجسٹرار سپریم کورٹ یا اٹارنی جنرل رابطہ کیا جاتا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ انہیں اس حوالے سے ایک حکومی خط تحریر کیا جاتا۔ لیکن اس معاملے میں اعلیٰ عدلیہ کی عزت کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔‘‘

کامران مرتضیٰ نے بتایا کہ اس وقت عدلیہ کی آزادی اور وقار پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے اس لیے اس پر خاموش نہیں رہا جا سکتا۔

انہوں نے مزید کہا، ’’قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کے اس سینئر جج کے خلاف یہ مہم دو ہزار سترہ  میں تحریک لبیک پاکستان کے فیض آباد دھرنے کے خلاف چھ فروری کو دیے گئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کے وہ سخت الفاظ ہیں، جن میں پاکستانی وزارت دفاعِ اور قومی سلامتی کے دیگر اداروں کے سربراہان کو یہ ہدایت دی گئی تھی کہ وہ اپنے ان ماتحت اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے، جو اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔‘‘

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے موجودہ صدر امان اللہ کنرانی کے بقول حکومت عدلیہ کی آزادی پر قدغن لگا کر قومی اداروں کو آپس میں دست وگریبان کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’پاکستان کی عدلیہ نے بہت عرصے بعد وکلاء کی جدوجہد کے باعث آزادی حاصل کی ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے ملک میں کرپشن اور عدلیہ کی آزادی کے لئے ایک موثر کردار ادا کیا ہے۔ بے بنیاد ریفرنسز کے ذریعے انہیں نشانہ بنانا قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے اب تک، جو بھی فیصلے کیے ہیں، ان میں میرٹ اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ حکمران یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں عدلیہ آزاد ہو۔‘‘

امان اللہ کنرانی کا کہنا تھا کہ آئین کا تقدس سب کی اولین ترجیح ہونی چاہیے لیکن حکومت بلا وجہ عدلیہ کے وقار سے کھیل رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ’’ قاضی فائز عیسیٰ کے اثاثوں کے حوالے سے جو باتیں سامنے آرہی ہیں ان میں حقائق کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ لندن میں جسٹس فائز عیسیٰ کے جو اثاثے خریدے گئے ہیں ان کی ادائیگی وہیں پر ہی کی گئی تھی اس لیے ان اثاثوں کے بارے میں سوال ان کی اہلیہ سے ہونا چاہیے تھا۔ قاضی فائز عیسیٰ پر تو اس حوالے سے کوئی الزام بھی نہیں ہے۔ یہ الزام صرف ان کی اہلیہ پر ہے، جو کہ ان کے زیر کفالت نہیں ہے۔‘‘