1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فاقہ زدہ شامی مہاجرین ’کتے، بلیاں کھانے پر مجبور‘

کشور مصطفیٰ29 جنوری 2014

دمشق میں یرموک کے فلسطینی کیمپ میں مقیم ہزاروں افراد کی بھوک کی انتہا ہو چکی ہے اور وہ اب آوارہ پھرنے والے جانوروں کو اپنی خوراک بنانے سے بھی گریز نہیں کر رہے جبکہ متعدد خواتین جسم فروشی پر مجبور ہو چکی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Az5T
تصویر: picture alliance/AP Photo

غربت، بھوک اور بے سروسامانی کے شکار ان نہتے انسانوں کی مایوسی اور محرومی حد درجہ بڑھ چکی ہے۔ اس علاقے کے مکینوں کی طرف سے انٹرنیٹ کے ذریعے ملنے والی اطلاعات کے مطابق یرموک میں چند خواتین جسم فروشی پر اُتر آئی ہیں۔ اسکائپ کے ذریعے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو حالات سے آگاہ کرنے والے یرموک کے ایک رہائشی علی نے کہا، ’’بھوک کے شکار بہت سے انسانوں نے کتوں، بلیوں یہاں تک کہ گدھوں کے گوشت سے اپنی بھوک مٹانا شروع کر دی ہے۔‘‘

2011ء میں شام میں حکومت کے خلاف بغاوت شروع ہونے کے وقت علی یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ اس نے اپنے بیان میں مزید کہا، ’’جانور تک بھوک سے مر رہے ہیں۔ ایک شخص نے ایک کُتے کو مار کر اُس کا گوشت حاصل کرنے کی کوشش کی تاہم کتا بھی اس قدر لاغر تھا کہ اُس کے جسم پر ہڈیوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔‘‘ علی کا کہنا تھا کہ جو کچھ چند ماہ پہلے تک ناقابل تصور تھا، وہ اب معمول بن گیا ہے۔

یرموک کسی زمانے میں شام کا ایک گنجان تجارتی اور رہائشی علاقہ ہوا کرتا تھا۔ اس جگہ کئی نسلوں سے فلسطینی اور شامی باشندے آباد تھے۔ 2011ء تک اس علاقے میں ڈیڑھ لاکھ فلسطینی پناہ گزین رجسٹرڈ تھے، جو اسرائیل کی طرف سے یہودی آباد کاری سے متاثر ہو کر یہاں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔ شامی صدر بشارالاسد کے خلاف بغاوت کی آگ بھڑکتے ہی اس علاقے کے مکینوں کی حالت درگوں ہونا شروع ہو گئی۔ اسد حکومت کے خلاف ہتھیار اُٹھانے والے شامی باشندے یرموک کے کیمپ میں منتقل ہو گئے۔ اُدھر چند فلسطینیوں نے بھی باغیوں کی مہم میں شمولیت اختیار کر لی جبکہ دیگر نے حکومت نواز گروپوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ خاص طور سے عوامی محاذ برائے آزادیء فلسطین کی جنرل کمانڈ نے۔

گزشتہ جون میں شامی فوج نے یرموک کو مکمل طور پر محاصرے میں لے لیا، جو بمشکل ایک مربع میل رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ حالات کے پیش نظر اس محاصرے سے پہلے ہی زیادہ تر مکین یہ علاقہ چھوڑ چکے تھے تاہم اقوام متحدہ کے مطابق 18 ہزار شہری اب بھی یرموک میں آباد ہیں۔

اب سات ماہ بعد کی صورتحال یہ ہے کہ اس علاقے میں غذائی اور طبی امداد کی سپلائی ختم ہو چکی ہے۔ اشیائے خورد و نوش کی قلت کے سبب جو تھوڑی بہت چیزیں دستیاب ہیں، اُن کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک کلو چاول کی قیمت 100 ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے علی کا مزید کہنا تھا، ’’حالات اس حد تک خراب ہو چکے ہیں کہ خواتین جسم فروشی کے لیے خود کو ایسے مردوں کے حوالے کر رہی ہیں جنہوں نے یرموک کے محاصرے سے پہلے ہی اشیائے خوراک کی ذخیرہ اندوزی کر لی تھی۔ محض ایک کپ چاول کے عوض یہ عورتیں خود کو بیچنے پر مجبور ہیں۔‘‘ علی نے کہا کہ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ایسے باپ کے احساسات کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے جو اپنے بچوں کی بھوک مٹانے سے قاصر ہو۔

دریں اثناء سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ یرموک میں غذا اور طبی امداد کی قلت کے سبب 78 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 25 خواتین اور تین بچے بھی شامل ہیں۔ ان میں سے 61 اموات گزشتہ تین مہینوں کے دوران ہوئیں۔