1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرد کے ذاتی دائرے اور شعور کا امتحان

2 مئی 2021

فرنود عالم کہتے ہیں کہ ذاتی دائرہ کسی فرد کا بے حد نجی معاملہ ہے اور بغیر کسی وجہ کے ریاست اور معاشرے کا اس دائرے میں جھانکنا ایک نہایت خوف ناک عمل ہے۔

https://p.dw.com/p/3spVd
DW Urdu Blogger Farnood Alam
تصویر: Privat

انسان جب تک اپنے ذاتی دائرے میں ہے، ضمیر کی عدالت کے سوا کہیں جوابدہ نہیں ہے۔ اپنی ناک سے آگے نکلتا ہے تو انسان اجتماعی دائرے میں آجاتا ہے۔ اِس دائرے میں ایک انسان کا کیا دھرا دوسرے انسان کو متاثر کرتا ہے۔ ایسے میں دوسرے انسان کا حق بنتا ہے کہ وہ شکوہ شکایت کرے اور قانون کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حساب کتاب کرے۔

ہم ایسی ریاست میں جی رہے ہیں جہاں ہر دوسرا بچہ مذہبی سیاست کے گہرے سائے میں پروان چڑھتا ہے۔ مذہبی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ وہ فرد کے ذاتی دائرے میں مداخلت کا حق چاہتی ہے۔ کیسے اٹھنا بیٹھنا ہے، کتنا کھاںا پیناہے اور کیا اوڑھنا بچھونا ہے کیا ہے یہ سب ریاست طے کرے گی۔ یعنی مذہبی سیاست فرد کے اُن معاملات پر بھی قانون سازی کرنا چاہتی ہے جو خود مذہب کے ہاں بھی گناہ کے دائرے میں آتے ہیں۔ مجھ جیسے مردودِ حرم گناہ نامی تصور کو بے معنی سمجھتے ہیں، لیکن اس کو اگر ایک حقیقت مان لیا جائے تو بھی اِس دائرے میں صرف مکالمہ ہی ہوسکتا ہے۔ نصیحت کی جاسکتی ہے یا پھر مشورہ دیا جاسکتا ہے۔ دلیل سُن کر بھی انسان اپنی راہ پر بدستور چلنا چاہتا ہے تو جبر کا کوئی پھاٹک اس کی راہ میں حائل نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی دل میں خدا رکھتا ہے تو جوابدہی بھی خدا کے حضور ہوگی۔ خدا سے کسی کو یاری نہیں ہے تو پیشی کو اپنے دماغ کا کٹہرا کافی ہے۔ اِس کے سوا جس نے بھی بات کرنی ہے، اسے دھونس کے جوتے باہر اتارنے ہوں گے اور اجازت لے کر اندر آنا ہوگا۔ 

یورپی یونین میں انٹرنیٹ اور بھی محفوظ

آسٹریلیا گوگل کے خلاف تفتیش کرے گا

ایک مدت سے ہو یہ رہا ہے کہ پولیس مجرم کے ساتھ اگر انسانیت سوز رویہ اختیار کرتی ہے تو باشعور نگاہیں بھی اس پر اطمینان کا اظہار کرتی ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ ہم اس قدیم تصور سے نکل نہیں پارہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے۔ شعوری یا لاشعوری طور پر ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دشمن یا مجرم کسی انسانی احترام کا حق دار نہیں ہوتا۔ اگر وہ ہاتھ کے نیچے آجائے تو قانون کے شکنجے میں کسنا کافی نہیں ہے، لازم ہے کہ ہاتھ پاوں باندھ کر اسے انتقام کے بھاڑ میں جھونک دیا جائے۔ 

سچ پوچھیے تو معاملے کا یہ طرز ہم نے اپنے خاندانوں سے سیکھا ہے۔ ابو سے تایا کا جھگڑا ہے تو اُن کے سلام کا جواب دینا بھی مجھ پر حرام ہے۔ سلام کر لوں تو یہ دراصل ابا حضور سے بے وفائی ہے۔ وفاداری کا ثبوت یہ ہے کہ تایا سامنے سے آئیں تو کنی کتراکے پتلی گلی سے نکل لیا جائے۔ محفل میں بیٹھے ہوں تو ان کی تذلیل کے لیے کم از کم بھی ایک جملہ اچھال کر حقِ فرزندی ادا کیا جائے۔ کہیں ذکر آجائے تو اُن کی اچھائیوں سے بھی صاف انکار کر دیا جائے۔ دوستیوں سے نہیں، بڑا انسان اپنی ناراضیوں سے پہچانا جاتا ہے۔ ناراضی تو یہ ہے کہ ایک انسان سے آپ کو جو معاملہ درپیش تھا وہ ختم کردیا جائے۔ انسانی احترام بھی اگر ختم کردیا جائے تو کچھ دیر کے لیے زندگی کی گاڑی ایک طرف لگا کر حضرتِ انسان کو جائزہ لینا چاہیے کہ اُس کی آنکھ میں کتنا پانی رہ گیا ہے۔

کوئی بھی انسان کسی بھی جرم کے بعد ہمارے انتقامی جذبے کو جوابدہ نہیں ہے، قانون کو جوابدہ ہے۔ جتنا جرم ہوگا، قانون اسی تناسب سے سزا دے کر راستہ چھوڑ دے گا۔ سزا کتنی دینی ہے اور کیسے دینی ہے، یہ فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔ پولیس نے چوں اور چرا ں کیے بغیر سیدھے سبھاو اس سزا کا اطلاق کرنا ہے۔ مانا کہ قاضی کے سینے میں بھی دل ہوتا ہے، مگر قانون اول و آخر دماغ کی پیداوار ہے۔ دل مانے یا نہ مانے، اسے اجتماعی شعور سے جنم والے قانون کی طرف ہی جانا ہوگا۔ لاریب کہ پولیس اہل کار بھی گوشت پوست کے انسان ہوتے ہیں، مگر دھیان رہے کہ وہ طلبہ تنظیم کے کارکن ہرگز نہیں ہوتے۔ وردی پہنا ہوا شخص سیر کا جواب سوا سیر میں نہیں دے سکتا۔ مجرم کے ہر کیے اور کہے کا جواب قانون کی دستاویز میں موجود ہے۔ پولیس مجرم پر اگر قابو پالے اور قانون کے حضور پیش کردے تو سارے حساب بے باق ہو جائیں گے۔ اس سے زیادہ اور چاہیے بھی کیا۔ بات یہ ہے کہ سزا کا حجم جب جرم سے بڑھتا ہے تو مجرم مظلوم بن جاتا ہے۔ کسی مجرم کے لیے اِس سے بہتر انعام کیا ہو سکتا کہ بیٹھے بیٹھائے اسے مظلوم بنادیا جائے۔ ظالم کو مظلوم بنادینا بجائے خود اتنا بڑا ظلم ہے کہ قوموں کو صدیوں تک اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ یہ ہمارے مسلسل تجربات کا سبق بھی ہے، مگر ہم غور نہیں کرتے۔ 

ملزم یا مجرم کے ساتھ تشدد کی جو مختلف صورتیں روا رکھی جاتی ہیں ان میں ایک نیا اضافہ اب پرائیویسی کو متاثر کرنے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ یہی پہلو ہے جس کی طرف در اصل توجہ دلانی تھی۔ پہلے مجرم کے سر پر بندوق تانی جاتی تھی، اب پولیس اہل کار بندوق ایک طرف رکھ کر سیل فون نکالتے ہیں اور مجرم کے چہرے پر تان لیتے ہیں۔ ملزم کو کیمرے کے سامنے بٹھایا جاتا ہے، گالم گفتار کی جاتی ہے، اوپر تلے جھانپڑ رسید کیے جاتے ہیں اور پورے اطمینان سے سوشل میڈیا پر جاری کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ویڈیو ہمارے اخلاقیات کے بے رحم سمندر میں یہاں وہاں ڈھولتی رہتی ہے اور حرام ہے جو کوئی پوچھ لے کہ سنتری کو تشدد کی ساری قسمیں ایک ہی ہلے میں آزمانے کا یہ حق کس نے دیا۔ صارفین تو چھوڑیے، خود عدالت کو بھی اِس نجی عدالتوں میں روا رکھے جانے والے اس رویے پر کبھی تشویش لاحق نہیں ہوئی۔

’ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لیے مذہب کا نام استعمال نہیں ہو سکتا‘

معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ پولیس تحقیقات کے لیے ملزم کے موبائل فون میں جھانکتی ہے تو کچھ ایسا ڈیٹا بھی پبلک کر دیتی ہے جس کا تعلق زیرِ تفتیش کیس کے ساتھ نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اس کا تعلق فرد کی اجتماعی زندگی کے ساتھ بھی نہیں ہوتا۔ ابھی کچھ ہی عرصے پہلے ایک صاحب قتل کے ایک کیس میں تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوئے۔ بجائے اس کے کہ اب اس قتل سے متعلق کوئی انکشاف سامنے آتا، ہمیں یہ بتایا گیا کہ موصوف کے سیل فون سے فحش ویڈیوز برآمد ہوئی ہیں۔ اب یہاں بہت سارے سوالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلاﹰ، ان وڈیوز کا زیر تفتیش کیس سے کیا تعلق ہے۔ مثلا، کسی کے فون یا لیپ ٹاپ کا ڈیٹا پبلک کرنے کا حق آپ کو کس نے دیا؟ مثلاﹰ، کیا آپ عدالتی فیصلے سے پہلے ملزم کے متعق ایک منفی تاثر اجاگر کرنا چاہتے ہیں تاکہ ثبوت وشواہد کی کمی کو "بدکرادی" کے تاثر سے پُر کیا جاسکے؟ مثلاﹰ، کیا عدالتیں منفی تاثر قائم کرنے والے اس رویے پر یہ سوچ کر خاموش رہتی ہیں کہ چلو اچھا ہے ہمیں فیصلہ دینے میں ذرا آسانی ہوجائے گی؟ 

 پولیس جب کسی ملزم کا پیٹ ننگا کرکے بیچ چوراہے پر لاتی ہے تو حساس طبعیتوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس بھیانک رویے پر سوال اٹھائیں گی۔ ہوتا مگر یہ ہے کہ اچھی بات بتانے والے اساتذہ بھی ملزم کے دائرے سے باہر آںے والی لکیر کو پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ روشن فکر ہوتے ہوئے بھی ذاتی دائروں میں دلچسپی لینے والا شخص درحقیقت یہ اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ میں فرد کی آزادی پر یقین نہیں رکھتا۔ اگر رکھتا بھی ہوں تو تب کہ جب معاملہ میری ذات کا ہو یا پھر اُن کا کہ جو میرے ہم مکتب و ہم مشرب ہیں۔

دوسرے انسان کا حق تسلیم کیے بغیر آپ اپنا حق حاصل نہیں کرسکتے۔ حقوق کے پانی کو ایک ترتیب سے گزارنے کے لیے ہمیں اصول کی ایک چوڑی نالی بنانی ہوتی ہے، پھر دل وجاں سے اس کی حفاظت کرنی ہوتی ہے۔ تب بھی، کہ جب وہ پانی  اصول کی اُسی نالی سے گزر کر ہمارے حریف کی گلیوں کو سیراب کر رہا ہوتا ہے۔ 

پولیس کی طرف سے افشا ہونے والے رازوں پر اگر آج ہم مطمئن ہیں، تو سوچنا چاہیے کہ کل کلاں یہی کیمریاتی تازیانے جب ہماری یا ہمارے پیاروں کی پشتوں پر برسیں گے تب ہمارا احساس کیا ہوگا۔ انسانیت یہ تو نہیں ہے کہ جب اپنی پشت پر پڑنے تب  کوڑے کی شدت کو محسوس کیا جائے۔ انسانیت تو یہ ہے کہ کوڑا  کسی دوسرے کی پشت پر پڑے اور نشان ہمارے دل پر رہ جائے۔