1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرینکفرٹ بک فیئر میں آرنلڈ شوارزنیگرکی سوانح عمری کی رونمائی

Adnan Ishaq11 اکتوبر 2012

جرمن شہر فرینکفرٹ میں دنیا کا سب سے بڑا کتاب میلہ بدھ دس اکتوبر کو شروع ہوا۔ اس میلے میں ہالی وُڈ کے مشہور اداکار آرنلڈ شوارزنیگر کی سوانح عمری کی بھی رونمائی ہوئی۔

https://p.dw.com/p/16NxB
تصویر: AP

اس میلے کے دوران فرینکفرٹ کا شہر عالمی ادب کا گہوارہ بنا رہا۔ وہاں مختلف ملکوں کے ادیبوں کی طرف سے بڑی تعداد میں اپنی نئی کتابوں کے اقتباسات پڑھ کر سنانے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ ہالی وُڈ کے مشہور اداکار آرنلڈ شوارزنیگر بھی اپنی سوانح عمری کے ساتھ فرینکفرٹ میں موجود تھے۔ ’ٹوٹل ریکال‘ نامی اس سوانح عمری کی تقریب رونمائی کے موقع پر شوارزنیگر کا کہنا تھا ’’اس کتاب کو تحریر کرنا میرے لیے بہت ہی مشکل مرحلہ تھا۔ اس دوران مجھے وہ کچھ کرنا پڑا، جو عام طور مجھے شدید ناپسند ہے۔ یعنی مجھے اپنی ماضی سے ملاقات کرنا پڑی‘‘۔

ٹوٹل ریکال 600 صفحات پر مبنی ہے۔ اس کتاب کے ذریعے عالمی شہرت کے حامل اس اداکار نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ انسانی زندگی میں سب کچھ ممکن ہے۔ اپنی سوانح کی مقبولیت کے لیے آرنلڈ کو پریشان ہونے کی بالکل کوئی ضرورت نہیں۔ ایک پبلشر وولفگانگ بالک کے بقول دیگر کتابوں کے مقابلے میں ٹوٹل ریکال کی فروخت قدرے آسان ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فرینکفرٹ میں ادبی شاہکاروں کی کمی نہیں ہے۔ بالک نے کہا کہ یہ شعبہ ایک بڑی تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ہم ڈیجیٹل دور میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ الیکٹرانک بُک ریڈر یا آئی پیڈ کے ذریعے کتابوں کا مطالعہ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جرمنی میں بھی یہ رجحان بڑھتا ہی جا رہا ہے‘‘۔

کُل پانچ روز یعنی چودہ اکتوبر تک جاری رہنے والے دنیا کے اس سب سے بڑے بک فیئر میں ناشرین کی جانب سے انٹرایکٹو بُکس بھی متعارف کرائی گئیں۔ اس حوالے سے اسکولوں کے لیے تھری ڈی کتابیں ایک جدت کے طور پر اس میلے کا حصہ رہیں۔ کتابوں کی صنعت سے متعلق ایک لمیٹڈ کمپنی ویسینسو Visenso کے مارٹن سِمرمان کہتے ہیں ’’اسکول کی روایتی کتابوں کا اثر جس مقام پر ختم ہوتا ہے، وہاں سے تھری ڈائمینشنل کتابوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ آئندہ تنہا پڑھنا کافی نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے سائبر کلاس روم ہوں گے، اور ان میں شرکت بھی ضروری ہو گی‘‘۔

64 ویں فرینکفرٹ بک فیئر میں اس سال دنیا کے کوئی 100 ممالک کے 7300 نمائش کنندگان اپنی اپنی مصنوعات لے کر فرینکفرٹ آئے، جن میں محض کاغذ پر چھپی ہوئی کتابیں ہی نہیں بلکہ ای بُکس یعنی الیکٹرانک کتابیں بھی شامل تھیں۔ گویا یہ میلہ کاغذ پر چھپی کتابوں کی آخری پناہ گاہ نہیں تھا بلکہ پبلشنگ کے آنے والے کل کے لیے نرسری کا کام بھی دے رہا تھا۔

اس سال نیوزی لینڈ اس میلے کا خصوصی مہمان ملک تھا، اور تقریباً ساڑھے چار میلن کی آبادی والے اس ملک سے ستر کے قریب ادیب اپنی اپنی تخلیقات کے ساتھ فرینکفرٹ میں موجود تھے۔ افتتاحی تقریب میں نیوزی لینڈ کے نائب وزیر اعظم بل انگلش بھی شامل ہوئے۔انہوں نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نیوزی لینڈ یہاں سے بہت دور ہے۔ اس وجہ سے وہ فرینکفرٹ آئے ہیں تاکہ اپنے ملک اور معاشرے سے متعارف کرا سکیں۔

نیوزی لینڈ کا ادبی شعبہ بھی اتنا ہی متنوع ہے جتنے کہ وہاں کے قدرتی مناظر۔ وہاں بچوں کی طرح طرح کی کتابوں سے لے کر نیوزی لینڈ کے قدیم مقامی باشندوں کی دلچسپ کہانیوں کی بھی بڑی بہتات ہے۔ نیوزی لینڈ سے آئی ہوئی ادیبہ ہینےموآن بیکر Hinemoan Baker نے کہا کہ نیوزی لینڈ میں ادب کی روایت ہزاروں سال پرانی نہیں ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی ثقافت ماؤری اور بحرالکاہل کے ورثے سے شروع ہوتی ہے اور اسے اگلی نسلوں تک زبانی پہنچایا گیا ہے۔

Buchmesse Frankfurt 2012
اس سال نیوزی لینڈ اس میلے کا خصوصی مہمان ملک تھاتصویر: Johannes Eisele/AFP/GettyImages

فرینکفرٹ بک فیئر میں شرکت کے لیے دنیا بھر سے ادیبوں، ناشرین اور اس شعبے سے منسلک افراد نے جرمنی کا رخ کیا۔ اس کئی روزہ میلے کے دوران مختلف موضوعات پر مباحثوں کا اہتمام کیا گیا اور بک انڈسٹری میں ڈیجیٹلائزیشن کے بڑھتے ہوئے رجحان کو بھی مرکزی اہمیت حاصل رہی۔

M. Casper-Claridge / ai / mm