1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قرآن کی لازمی تعلیم، فیک نیوز میں سب بہہ گئے

عاطف توقیر
30 اگست 2018

پاکستانی سوشل میڈیا میں یہ خبریں زیربحث ہیں کہ تمام ملکی تعلیمی اداروں میں قرآن کی تعلیم لازمی قرار دی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/343Z2
Afghanistan Polizei befreit Kinder aus den Händen der Taliban
تصویر: Getty Images/AFP/Z. Hashimi

سوشل میڈیا پر یہ فیک خبر گرم ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت نے ملک بھر میں قرآن کی تعلیم لازمی قرار دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس خبر کی تھوڑی سی تحقیق کی جائے، تو حقیقت بالکل ہی مختلف نکلتی ہیں۔ تاہم دوسری جانب تسلیمہ نسرین تک نے اس خبر کی تصدیق کرنے کی بجائے، اسے درست سمجھتے ہوئے اس پر اپنی رائے تک دے دی۔

پاکستان: قران کی تعلیم لازمی لیکن ترجمے پر اختلافات ابھی سے

کیا یہ بچوں کو اسکولوں میں جہاد سکھانے کا وقت ہے؟

وہ اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں لکھتی ہیں کہ عمران خان  نے ملک بھر کے تمام سرکاری اور نجی اسکولوں میں جماعت اول سے بارہویں تک قرآن کی تعلیم لازمی کر دی ہے اور یہ ایک برا قانون ہے۔

پاکستان میں متعدد صحافی ویب سائٹس کی جانب سے بھی یہ خبریں دی جاتی رہی ہیں کہ پاکستان میں قائم ہونے والی نئی حکومتی کابینہ کے پہلے اجلاس میں ملک بھر میں پہلی سے دسویں تک قرآن کی لازمی تعلیم کا فیصلہ کیا گیا۔ اس حوالے سے تاہم ڈی ڈبلیو نے جب پاکستانی وزیراطلاعات و نشریات فواد چوہدری سے بات کی، تو ان کا کہنا تھا کہ کابینہ کے اجلاس میں اس موضوع پر کوئی بات نہیں ہوئی۔

اس سے قبل کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں بھی فواد چوہدری نے اجلاس میں زیربحث آنے والے موضوعات پر تفصیلی بات کی تھی، تاہم ملک بھر میں قرآن کی تعلیم کو لازمی قرار دینے سے متعلق کوئی گفت گو نہیں کی گئی تھی۔

یہ بات تاہم واضح رہے کہ گزشتہ برس فروری میں سابقہ حکومت کی قائمہ کمیٹی نے ملک میں قرآن کی تعلیم لازمی قرار دینے سے متعلق سفارشات کا ایک بل منظور کیا تھا۔

اس بل میں یہ تجویز کیا گیا تھا کہ پہلی کلاس سے بارہویں تک وفاقی حکومت کے زیرِ اتنظام تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قران کی تعلیم دی جائے گی۔ پہلی کلاس سے پانچویں کلاس تک ناظرہ جب کہ قران کا ترجمہ چھٹی کلاس سے بارہویں کلاس تک پڑھایا جائے گا۔ گزشتہ دور حکومت کے وفاقی وزیر برائے تعلیم و پروفیشنل ٹریننگ بلیغ الرحمان کا اس موقع پر کہنا تھا، ’’قران شریف کا ایک سادہ سا ترجمہ جو تمام مکاتبِ فکر کے لیے قابلِ قبول ہو وہ پڑھایا جائے گا۔‘‘

تاہم قرآن کے ترجمے پر ایک طرف تو سول سوسائٹی کی جانب سے اعتراضات سامنے آئے تھے تو دوسری طرف مختلف مسالک کو بھی بچوں کو پڑھائے جانے والے ترجمے پر کوئی اتفاق نہیں ہو پایا تھا۔

پرانے اور خستہ قرآنی اوراق کی تدفین

اس قانونی مسودے کا بھی اطلاق فقط وفاق اور وفاق کے زیرانتظام علاقوں کے سرکاری اسکولوں کے لیے تھا۔

ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے سینیئر صحافی اعزاز سید نے بھی کہا کہ ملک میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبوں کو منتقل کیا جا چکا ہے اور اس لیے وفاقی حکومت اس معاملے میں فیصلے کا اختیار نہیں رکھتی۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت اگر ایسا کوئی فیصلہ کر بھی لے، تو دستوری طور پر اس کا اطلاق صرف وفاقی ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے زیرانتظام اسکول پر ممکن ہے، جب کہ صوبائی سطح پر تمام ریاستی حکومتوں اور اسمبلیوں کو اپنے اپنے طور پر اس سلسلے میں فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔