1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قطری بحران کے جلد حل کی امید دم توڑتی ہوئی

نوید احمد
17 جنوری 2018

متحدہ عرب امارات اور قطر کی جانب سے ایک دوسرے پر تازہ الزامات سے بحران کے جلد حل کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/2qzUY
Katar Doha Skyline
تصویر: Getty Images for ANOC/M. Runnacles

قطر اور خلیجی ممالک کی باہمی تلخی میں کے خاتمے کے لیے جاری کوششوں کا تاحال ثمر حالات میں مزید ابتری سے گریز دکھائی دیتا ہے۔ جون سے اب تک قطر سے ہمسایہ عرب ممالک کے مطالبات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کے قطر سے تجارتی، سفارتی، سیاسی اور دفاعی تمام تعلقات منقطع ہیں۔ حتٰی کہ دسمبر 22  کو قطرمیں منعقد ہونے والے خلیجی کپ ٹورنامنٹ کو ہمسایہ ممالک کے دباﺅ کے باعث کویت منتقل کردیا گیا لیکن قطر کی شمولیت پر اعتراض نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب متحدہ عرب امارت کی طرح سعودی عرب نے بھی قطر سے کسی قسم کی آمدورفت پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور قطر کا زمینی سرحدی راستہ بھی دسمبر کے وسط سے بند کردیا گیا ہے۔

نئی تلخیاں مصالحتی عمل میں نئی رکاوٹ

تاہم حالیہ دنوں میں دو نئے معاملات تلخی کا باعث بنتے جارہے ہیں۔ قطری شاہی خاندان کے رکن عبداللہ الثانی کی متحدہ عرب امارات سے جاری کردہ ایک ویڈیو حالات پر اثر انداز ہورہی ہے۔  قطری شہزادے نے اپنے اس ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ اگرچہ وہ متحدہ عرب امارات کے مہمان کی حیثیت سے وہاں گئے تھے مگر اب وہ وہاں محصور کردیے گئے ہیں۔ ان کی سماجی ویب سائٹس پر جاری کردہ اس ویڈیو سے یہ واضح ہے کہ وہ ابوظہبی ایئرپورٹ پر موجود ہیں۔ عبداللہ الثانی پہلے ہی متنازع شخصیت ہیں جنہیں چار ہمسایہ ممالک نے بحران کے ابتداء سے ہی قطری قائد حزب اختلاف کے طور پر پیش کیا مگر اب ان کے بقول انہیں اپنی دو صاحبزادیوں کے ہمراہ ابوظہبی سے کویت سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے۔

Sheikh Abdullah bin Ali Al Thani Vereinigte Arabische Emirate
عبداللہ الثانی نے اپنے ویڈیو پیغام میں یہ خدشہ ظاہر کیا کہ وہ امارات میں آزاد نہیں اور اگر ان کو کچھ ہوا تواس کا الزام قطر پر ڈالے جانے کا خطرہ ہے۔ تصویر: Twitter/ajmubasher

عبداللہ الثانی نے اپنے ویڈیو پیغام میں یہ خدشہ ظاہر کیا کہ وہ امارات میں آزاد نہیں اور اگر ان کو کچھ ہوا تواس کا الزام قطر پر ڈالے جانے کا خطرہ ہے۔ وہ ویڈیو پیغام میں کافی مضحمل دکھائی دے رہے ہیں۔

عبداللہ الثانی کو دو روز تک امارات میں روکے رکھے جانے کے بعد بالآخر آج بدھ 17 جنوری کو انہیں کویت جانے کی اجازت دے دی گئی ہے جہاں انہیں علاج کی غرض سے ہسپتال میں داخل ہونا ہے۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہو گا قطری شاہی خاندان کی یہ متنازعہ شخصیت دوحہ کب واپس لوٹتے ہیں۔

قطر اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے ایک دوسرے پر الزامات

دوسری توجہ طلب خبر میں متحدہ عرب امارات اور قطر کی جانب سے مبینہ طور پر ایک دوسرے کی سویلین ہوا بازی میں مداخلت ہے۔ تفصیل کچھ یوں ہے کہ گزشتہ ہفتے قطر کی جانب سے اماراتی جنگی ہوائی جہازوں کی جانب سے دو مرتبہ اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی شکایت سامنے آئی۔ اب گزشتہ دو ایام سے متحدہ عرب امارات کی ائیرلائنیں قطری فضائی حدود میں لڑاکا جہازوں کی فضا میں موجودگی اور سول ہوا بازی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوششوں کی شکایت کر رہی ہیں۔ جب قطر نے اماراتی جہازوں کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کا الزام لگایا تھا تو ابوظہبی نے اس کو غلط قرار دیا۔ اب اماراتی الزام پر قطر نے کسی مبینہ مداخلت سے انکار کردیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ فضائی حدود سے متعلق الزام تراشی کی وجہ عبداللہ الثانی کے پیغام کا رد عمل ہے۔

Hafen Doha Katar
قطری وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق دوحہ عالمی مصالحتی اداروں سے فضائی،سمندری اور زمینی بندش کے خلاف رجوع کر رہا ہے۔تصویر: picture-alliance/dpa/Zumapress

تاحال متحدہ عرب امارات کی طرف سے اس کے مسافر بردار ہوائی جہازوں کو ہراساں کیے جانے کی کوئی تصاویر جاری کی گئی ہیں اور نہ ہی باقاعدہ شکایت کا اندراج کرایا گیا ہے۔ البتہ قطر نے اقوام متحدہ میں ابوظہبی کے جنگی طیاروں کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی شکایت ضرور درج کروائی ہے۔

دریں اثناء قطری وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق دوحہ عالمی مصالحتی اداروں سے فضائی اور زمینی بندش کے خلاف رجوع کر رہا ہے۔ عالمی اداروں میں شکایت دائر کرنے کا واضح مطلب ہے کہ بحران کے جلد حل کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔ عالمی ادارے ایسے مسائل پر فیصلہ کرنے میں سالوں گزار دیتے ہیں۔ بہرحال کویت دسمبر میں خلیجی تعاون کونسل کے ناکام اجلاس کے باوجود مصالحتی کوششوں میں مصروف ہے۔ منگل 16 جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی قطری راہنما سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔

خلیجی بحران کے حوالے سے جاری صورتحال اور سامنے آنے والی حالیہ پیشرفت کے حقیقت پسندانہ تجزیے سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں۔

1۔ قطر اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات میں کشیدگی حالات میں بہتری میں بڑی رکاوٹ رہی ہے اور یہ کشیدگی فی الحال قائم رہنے کا امکان ہے۔ دوسری جانب قطر اور مصر کے خفیہ مذاکرات جاری تو ہیں مگر قاہرہ اور ابوظہبی کے دیرینہ تعلقات کے باعث مثبت پیش رفت اتنی آسان دکھائی نہیں دیتی۔ سعودی عرب اپنے حلیفوں کے اتفاق کے بغیر قطر سے تعلقات معمول پر لانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب خلیجی تعاون کی انجمن کا اگلا اجلاس کب اور کہاں ہوتا ہے اور امریکی حکومت کسی حد تک حالات میں مثبت دلچسپی لیتی ہے؟ قطر کہاں تک بحران کے خاتمے کے لیے سمجھوتہ کرنے کو تیار ہے؟

Naveed Ahmed
نويد أحمد خلیج میں مقیم پاکستانی تحقیقاتی صحافی ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں عسكرى، سفارتى اور ریاستى امور پر تحقیق اور رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ Twitter @naveed360تصویر: privat

2۔ قطری معیشت خصوصاً ہوا بازی اور مہمان نوازی کے شعبے کافی حد تک متاثر بھی ہوئے ہیں۔ البتہ قطر ورلڈ کپ 2022ءکی تیاریوں میں بلا خلل مشغول ہے جس سے روزگار کی فراہمی برقرار ہے اور معیشت میں زرمبادلہ کا تبادلہ بھی جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ قطر مزید کتنے عرصے تک معاشی اور سفارتی بندش کی بھاری قیمت اداکرتا رہے گا۔ حالیہ پیداواری صلاحیت برقرار رکھتے ہوئے قطر 137 برس تک گیس نکال کر فروخت کرسکتا ہے لیکن عالمی معیشت میں گیس کی ضرورت سے زیادہ فروخت ناممکن ہوگی۔ ہمسایہ ممالک جانتے ہیں کہ قطر پر سب سے مؤثر دباﺅ معاشی اور تجارتی ہی ہے اور رہے گا۔ یہ بات طے ہے کہ بحران کے خاتمے کی صورت میں بھی قطر خود انحصاری کی پالیسی پر قائم رہے گا اور عالمی کمپنیوں اور اداروں سے دبئی اور ابوظہبی کے بجائے براہ راست تجارت کو ترجیح دے گا۔

3۔ عبداللہ الثانی کو اکسانے کی ناکام کوشش کے بعد یہ امر واضح ہے کہ ہمسایہ ممالک قطر کو اندرونی خلفشار سے دوچار نہیں کرسکتے۔ قطری شاہی خاندان کے لیے یہ اتفاق ملک میں عزت اور توقیر کا باعث ہے۔ قطری قیادت سیاسی قوت ارادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملکی سالمیت اور وقار کا سمجھوتہ کرتی دکھائی نہیں دیتی۔

4۔ بحران کی طوالت قطر میں غیر ملکی افرادی قوت کے لیے منفی اثرات کی حامل ہے۔ اگرچہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے برعکس قطر نے ملک میں پانچ فیصد ٹیکس کا نفاذ نہیں کیا پھر بھی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں قدرے اضافے کے باعث قطر میں مقیم غیر ملکی افراد میں تشویش بڑھ رہی ہے۔