1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قیدیوں کی رہائی کے افغان امن عمل پر اثرات

6 جنوری 2013

افغانستان میں جب درجنوں مشتبہ عسکریت پسندوں کو رہا کیا گیا، تو ان کے رشتہ دار اپنی نم آنکھوں کے ساتھ ان کے لیے منتظر کھڑے تھے۔ کابل حکومت کے ایسے اقدامات کو مفاہمتی کوششوں کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/17Emh
تصویر: Getty Images

تقریبا 80 قیدی سفید ٹوپیاں پہنے جمعے کے روز افغانستان کی سب سے بڑی جیل پل چرخی کے اندر منعقد ہونے والی رہائی کی تقریب میں موجود تھے۔ دارالحکومت کابل کے مشرق میں واقع اس جیل میں زیادہ تر قیدی بگرام کے فوجی اڈے سے منتقل کیے گئے تھے۔ ان قیدیوں میں سے بڑی تعداد غیرملکی فوجیوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے والوں کی ہے۔

ان قیدیوں کو ایک ایسے موقع پر رہا کیا گیا ہے، جب رواں ہفتے افغان صدر حامد کرزئی اپنے دورہء واشنگٹن میں امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات کر رہے ہیں۔ اس سے قبل صدر کرزئی نے اصرار کیا تھا کہ غیرملکی فوج تمام قیدیوں کو افغان سکیورٹی فورسز کے سپرد کرے۔ واضح رہے کہ افغانستان میں غیرملکی فوج کا جنگی مشن سن 2014ء میں مکمل ہو جائے گا اور اِس وقت نیٹو دستے سلامتی کی ذمہ داریاں مقامی فورسز کو سونپنے میں مصروف ہیں۔

دوسری جانب قیدیوں کی رہائی پر امریکی حکام تحفظات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ رہائی پانے والے ان قیدیوں میں سے کچھ دوبارہ میدان جنگ کا رخ کریں گے اور عسکریت پسندوں کے ساتھ جا ملیں گے۔ دوسری جانب رہائی پانے والے متعدد قیدیوں کا کہنا ہے کہ وہ بے قصور ہیں اور انہیں صرف شبے میں گرفتار کر لیا گیا اور وہ کئی مہنیوں سے قید ہیں۔

Gefangene Taliban verlassen Gefängnis
ان قیدیوں کو بگرام حراستی مرکز سے پل چرخی منتقل کیا گیا تھاتصویر: AP

رہائی پانے والے ایک قیدی نے خبر رساں ادارے AFP کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ گزشتہ 20 ماہ سے قید ہے۔ ’’مجھے قندھار سے حراست میں لیا گیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس گرفتاری کی وجہ کیا تھی۔ لیکن مجھے غیرملکی فوجیوں نے گرفتار کیا۔‘‘

اس قیدی کا کہنا تھا کہ اس سے اچھا برتاؤ کیا گیا، تاہم ایک دوسرے قیدی نے بتایا کہ اس شمالی صوبے سرِ پل سے حراست میں لیا گیا اور افغان خفیہ ادارے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی NDS کے اہلکاروں نے اس کے ساتھ انتہائی برا برتاؤ برتا۔

اس شخص کا کہنا تھا کہ آج رہائی پانے والے یہ قیدی کسی بھی طرح سے مجرم نہیں تھے۔ ’’مجھ پر طالب ہونے کا الزام عائد کیا جاتا رہا مگر میں بے گناہ تھا۔ میں نے ڈھائی سال جیل میں گزارے۔‘‘

دوسری جانب گزشتہ برس بگرام جیل کا کنڑول سنبھالنے والے جنرل غلام فاروق نے یہ بتائے بغیر کہ اب تک کتنے افراد رہا کیے جا چکے ہیں، کہا کہ مکمل تفتیش اور اطمینان کر لینے کے بعد ان قیدیوں کو رہا کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں جبکہ ان قیدیوں سے یہ ضمانت بھی لی گئی ہے کہ یہ کسی عسکریت پسند گروہ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ تاہم مبصرین کو تشویش ہے کہ کمانڈ کے اعتبار سے نچلی سطح کے یہ مشتبہ طالبان مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے میں کوئی موثر کردار ادا نہیں کر سکتے، تاہم ان کی رہائی سے افغانستان میں سلامتی کی صورتحال بگڑ سکتی ہے۔

(at/sks (AFP