1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاہور بن گیا رنگون

14 جولائی 2018

میرے ایک کشمیری دوست، جس نے دونوں کشمیروں میں بہت خون خرابہ دیکھا ہوا ہے، نے انہی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا،’لیکن ضروری نہیں کہ الیکشن ہوں بھی‘۔

https://p.dw.com/p/31RKh
Hasan Mujtaba
تصویر: Privat

انیس سو پچانوے میں ایک فلم آئی تھی ’بیانڈ رنگون‘۔ اس فلم میں ایک غیر ملکی سیاح کی آنکھ سے اسّی کے اواخر اور نوے کی ابتدائی دہائی کا برما دکھایا گیا تھا، جہاں جنگل کے بادشاہ فوجی جنرل تھے۔ کل کی آنگ سان سوچی ( آج کی نہیں) جسے میں تب برما کی بے نظیر کہا کرتا تھا، نظر بند کردی گئی تھی۔ رنگون کی سڑکوں پر جمہوریت نواز اور فوج مخالف مظاہرے تھے۔ رکاوٹیں اور بندشیں، آنسو گیس، لاٹھی چارج، فائرنگ اور تشدد تھا۔ لیکن یہ محض اتفاق تھا یا کچھ اور کہ جہاں فلم ختم ہوئی وہاں آخری مںظر میں ٹیلی وژن پر عمران خان کی تصویر اور ریڈیو پر اس کے ورلڈ کپ جیتنے کی خبر نشر ہوتے سنوائی گئی تھی۔

پیارے پاکستان میں عوام کے اعصاب اور صبر کے حساب سے تھوڑے ردوبدل کے ساتھ ’ہر ایک چیز ہے اپنی جگہ ٹھکانے پر، کئی دنوں سے شکایت نہیں زمانے سے‘ والے ایک  فلمی گیت کے بولوں کے مصداق گزشتہ روزلاہور میں وہی میدان، محلے گلیاں اور بازار تھے ،وہی لاٹھی کا راج تھا اور وہی لوگوں کے اژدہام۔ میرے ایک سابق 'غائب شدہ' دوست سے تعارف کرواتے ہوئے، اسکے تفتیشی افسر نے کہا تھا، 'کہانی وہی ہے، کردار بدلتے رہتے ہیں'۔ بعد ازاں اسکا یہ بھی مشورہ تھا کہ، 'ہم سے ہوشیاری مت کرنا، ہمیں سب پتہ ہے'

پاکستان مسلم لیگ نون کی ریلی، لوگ کیا کہتے ہیں

اب برما میں نہ وہ کل کی سوچی رہی ہے نہ لاہور میں کل بے نظیر اتری تھی بلکہ اس جگہ  نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف اترے تھے۔ لیکن لاہور تھا کہ انیس سو پچانوے والی اس فلم میں اسّی کی دہائی والے اصلی رنگون یا ینگون کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔ بس بے نظیر اور سوچی کی جگہ اب سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم شریف نے اترنا تھا۔ اور اترنے ہی  پائے تھے کہ گرفتار ہو گئے۔

اندرون اور بیرون شہر لاہور پر جگہ جگہ پولیس کے ناکوں، اندرون شہر ریلیوں اور کاروں جیپوں اور انسانی سروں کے درمیان ٹیلی وژن نیوز میں ایک کردار دیکھا جس کے نام پر، جس کے ووٹ کی عزت کے نعرے پر، جس کی دولت لوٹنے والے بیانیے پر یہ سب میلا ٹھیلا سجا تھا اور یہ سب رن پڑا تھا۔ وہ اس کہانی کا مرکزی کردار ہوتے ہوئے بھی اس سارے فسانے سے غائب تھا۔ وہ خودکش بمباروں، سادہ لباس اور بارودی اہلکاروں، انسداد بلوہ کمانڈوز بمقابلہ مسلم لیگی کارکنوں سے بھرے رستوں پر اس دن گھر سے نکلا تھا۔ بس اس کے لیے یہ ایک رش سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ وہ اس امید پر نکلا ہوگا کہ آج بھی شاید اس کے گھر کا چولہا جل جائے۔ وہ اک چھابڑی والا تھا۔ سر پہ چھابڑی لیے میں نے بھی اسے دور سے روشنی اور آواز والے معجزے سے نیوز چینل پر اس ہجوم کے بیچ میں جاتے دیکھا۔

آئندہ انتخابات کے لیے، تمام پارٹیوں اور امیدواروں نے اسی شخص کے 'ترلے' کرنے ہیں۔ اسے خود پتہ نہیں کہ انسانوں کے اس چڑیا گھر میں اصلی تے وڈا شیر وہی ہے۔ اور اس وقت ’کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے‘ کے ٹویٹس مسلم لیگ نون کے حامیوں کی طرف سے آ رہے تھے۔ مانا کہ بہت بڑے ہجوم تھے اندرون شہر میں (جن کو پتہ ہے کہ اندرون شہر کا کون سا راستہ کہاں جاتا ہے۔ انہوں نے تو مغلوں اور انگریز فوجوں کو بھی چکمے دیے ہوں گے)۔

لیکن لیگیوں نے ہجوم کی کئی کلر تصویریں ایسی بھی چلائیں جو داتا دربار یا مال روڈ کی نہیں  بلکہ عراق کی تھیں۔ دورویہ سڑکوں پر کھجور کے اتنے درخت لاہور میں کہاں سے آئے؟  اگر وہ ایسا نہیں بھی کرتے تو کل کا دن انتخابات کا ایک طرح سے پہلا دن تھا جس کا پہلا راؤنڈ مریم اور نواز شریف، نا اہل قرار دیے ہوئے بھی، جیت گئے ہیں۔ باقی دنیا جہان سے کاٹ کر رکھا ہوا لاہور پرانے برما کا منظر پیش کر رہا تھا جس کے آخر میں وہی عمران خان دکھایا جا رہا تھا۔

لیکن خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جو ہلاکتیں ہوئیں ہیں انہیں دیکھ کرسوال اٹھتا ہے کہ یہاں انتخابات کس کی نگرانی میں ہو رہے ہیں؟ میرے ایک کشمیری دوست، جس نے دونوں کشمیروں میں بہت خون خرابہ دیکھا ہوا ہے، نے انہی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’لیکن ضروری نہیں کہ الیکشن ہوں بھی‘۔

تاہم وہاں موجود ایک اور سیانے کا کہنا تھا،  'اب اگر اتنا میلہ لگا ہے تو الیکشن ضرور ہوگا۔'

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں