1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنان کے الیکشن میں اہم طاقتیں کون سی ہیں؟

6 مئی 2018

اتوار چھ مئی کو لبنان میں عام انتخابات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ نو برس بعد ہونے والے اس الیکشن میں پارلیمان کی ایک سو بیس نشستوں کے لیے پانچ سو سے زائد امیدوار میدان میں ہیں۔ اس عرب ملک کی سیاسی صورتحال پر ایک نظر۔

https://p.dw.com/p/2xFhb
Libanon - Vor der Parlamentswahl
تصویر: Reuters/J. Saidi

لبنان میں آخری مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد سن دو ہزار نو میں ہوا تھا۔ ملکی آئین کے مطابق ہر چار برس بعد الیکشن کا انعقاد لازمی ہوتا ہے تاہم سیاسی بحران کی وجہ سے اس عرب ریاست میں گزشتہ قریب ایک عشرے سے الیکشن منعقد کرانا ممکن نہیں ہو سکا تھا۔ ناقدین کے مطابق لبنان کے الیکشن کی وجہ سے ملکی معیشت کو جلا ملی گی اور کئی سیاسی مسائل کو حل کرنے کے نئے راستے بھی کھل جائیں گے۔

سعد الحریری لبنان واپس چلے جائیں گے

میں فی الحال وزیر اعظم کی ذمہ داریاں نبھاتا رہوں گا، الحریری

حریری لوٹ کیوں نہیں رہے، سعودی عرب وضاحت کرے، لبنانی صدر

لبنان میں شراکت اقتدار کے نظام کے تحت پارلیمان میں مسلمان اور مسیحیوں کی تعداد برابر ہونا چاہیے۔ اس مرتبہ کے الیکشن میں پرانی سیاسی پارٹیوں کے علاوہ نئی گروہ اور آزاد امیدوار بھی میدان میں اترے ہیں۔ اس لیے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ الیکشن لبنان کے لیے ایک اچھی پیش رفت ثابت ہو سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ لبنان کا سیاسی منظر نامہ کیسا ہے اور وہاں نمایاں سیاسی پارٹیاں کون سی ہیں؟

فیوچر موومنٹ

موجودہ وزیر اعظم سعد الحریری کے والد رفیق الحریری نے نوے کی دہائی میں فیوچر موومنٹ (تحریک برائے آزادی) کی بنیاد رکھی تھی۔ سابق وزیر اعظم رفیق الحریری سن دو ہزار پانچ میں ایک بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔ سعد الحریری اس وقت ملک میں سب سے بڑے پارلیمانی بلاک کے رہنما ہیں۔ سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے سعد الحریری کے پاس سعودی عرب کی شہریت بھی ہے۔

سعد الحریری ایران کے حمایت یافتہ گروپ حزب اللہ کے ناقد ہیں۔ تاہم یہ تحریک ان کی یونٹی حکومت کا حصہ بھی ہے۔ عوامی جائزوں کے مطابق الحریری کی فیوچر موومنٹ نئے الیکشن قوانین کی وجہ سے اتوار کے انتخابات میں کچھ نشستیں کھو بھی سکتی ہے۔ سعودی حکومت کی طرف سے اخراجات میں کمی کرنے کی وجہ سے ارب پتی بزنس مین الحریری نے اپنی کمپنی میں بہت سی ملازمتیں ختم بھی کی ہیں، جس کی وجہ سے ان کے کئی حامی ان سے خائف ہو چکے ہیں۔ سن دو ہزار نو کے الیکشن میں اس پارٹی نے 26 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔

Libanon - Vor der Parlamentswahl
سعد الحریری ایران کے حمایت یافتہ گروپ حزب اللہ کے ناقد ہیںتصویر: Reuters/J. Saidi

آزاد حب الوطن تحریک

فری پیٹریاٹک موومنٹ (آزاد حب الوطن تحریک) کے بانی صدر میشل عون ہیں۔ ماضی میں یہ شام مخالف مسیحی اپوزیشن رہنما اب جنگجو گروہ حزب اللہ کا ساتھی بن چکا ہے۔ حزب اللہ اور فری پیٹریاٹک موومنٹ نے فروری سن دو ہزار چھ میں ایک معاہدہ کیا تھا۔ فری پیٹریاٹک موومنٹ اس وقت پارلیمان میں دوسرا سب سے بڑا سیاسی دھڑا ہے۔

اتوار کے الیکشن میں فری پیٹریاٹک موومنٹ کے امیدوار ملک بھر سے کھڑے ہوئے ہیں۔ اس پارٹی کو لبنان کے متعدد شیعہ حلقوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اس الیکشن میں اس پارٹی کی قیادت میشل عون کے داماد اور وزیر خارجہ جبران باسیل کر رہے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں فری پیٹریاٹک موومنٹ نے انیس نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔

حزب اللہ

لبنان میں فعال ملیشیا گروہ حزب اللہ شیعہ مسلمانوں کی ایک تحریک ہے۔ اسے ایران اور شام کی حمایت بھی حاصل ہے۔ یہ گروہ سن انیس سو بیاسی میں بنایا گیا تھا، تب اس کا بنیادی مقصد لبنانی علاقوں میں اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت دکھانا تھا۔ اب یہ گروہ لبنان میں ایک اہم جنگجو اور سیاسی طاقت بن چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حزب اللہ گروپ ایک منظم طریقے سے اپنا نیٹ ورک چلا رہا ہے، جس کے تحت اسکول، طبی مراکز، امدادی ادارے اور دیگر سماجی ادارے بھی فعال ہیں۔

حزب اللہ کو لبنان کی مسیحی اقلیت کی طرف سے بھی حمایت حاصل ہے۔ حسن نصراللہ کی قیادت میں حزب اللہ نے اپنے جنگجو شام بھی روانہ کیے ہیں، جہاں وہ صدر بشار الاسد کی افواج کے ہمراہ لڑ رہے ہیں۔ کئی ناقدین کے مطابق حزب اللہ کا یہ فیصلہ ملکی سیاست میں اس کے لیے ناپسندیدگی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ اتوار کے الیکشن میں حزب اللہ پارلیمان میں اپنی بارہ نشستوں پر دوبارہ کامیابی حاصل کر لے گی۔

عمل گروپ

یہ شیعہ سیاسی گروہ ستر کی دہائی میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کا بانی امام موسیٰ الصدر کو قرار دیا جاتا ہے، جو 1978 میں لیبیا میں لاپتہ ہو گئے تھے۔ تب سے ان کی کوئی اطلاع نہیں مل سکی۔ عمل گروپ لبنان میں حزب اللہ کا قریبی ساتھی ہے۔ اس گروہ کی قیادت 80 سالہ نبیہ بری کے ہاتھوں میں ہے، جو اس وقت پارلیمان کے اسپیکر بھی ہیں۔

گزشتہ انتخابات میں اس گروہ نے تیرہ نشتسوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اس الیکشن میں عمل گروپ اپنی حامی حزب اللہ اور دیگر شام نواز سیاسی دھڑوں کے ساتھ مل کر حصہ لے رہا ہے۔

Libanon Beirut vor den Parlamentswahlen
ان عام انتخابات میں سول سوسائٹی کے کارکنان، خواتین اور آزاد امیدواروں کی ریکارڈ تعداد حصہ لے رہی ہےتصویر: picture-alliance/abaca/A. R. Ammar

پروگریسیو سوشلسٹ پارٹی

پروگریسیو سوشلسٹ پارٹی لبنان میں دروز کمیونٹی کی مرکزی سیاسی جماعت ہے۔ لبنان کی مجموعی آبادی کا پانچ فیصد دروز برادری کے افراد پر مشتمل ہے۔ اس پارٹی کی قیادت ولید جنبلاط کے پاس ہے۔ اس الیکشن میں وہ اپنے بھائی تیمور کے حق میں بیٹھ چکے ہیں۔ یہ پارٹی اس مرتبہ الیکشن سعد الحریری کی فریڈم موومنٹ اور متعدد مسیحی گروپوں کے ساتھ مل کر لڑ رہی ہے۔

لبنانی  فورسز

لبنان میں دائیں بازو کی مسیحی سیاسی جماعت ’لبنانی فورسز‘ صدر میشل عون کی ’فری پیٹریاٹک موومنٹ‘ کی مرکزی مخالف جماعت ہے۔ یہ حزب اللہ کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔ سابق مسیحی جنگی سردار سمیر جعجع کی قیادت میں یہ پارٹی اس الیکشن میں متوقع طور پر بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہے۔ گزشتہ الیکشن میں اس پارٹی نے آٹھ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔

سول سوسائٹی

لبنان میں چھ مئی بروز اتوار ہونے والے عام انتخابات میں سول سوسائٹی کے کارکنان، خواتین اور آزاد امیدواروں کی ریکارڈ تعداد حصہ لے رہی ہے۔ ان کا نعرہ ہے کہ بدعنوان سیاستدان ہی توانائی کے بحران، بڑھتے ہوئے قرضوں اور کوڑے کرکٹ کے بحران کے ذمہ دار ہیں۔

ناقدین کے مطابق یہ آزاد امیدوار مذہبی بنیادوں پر فعال جنگی سرداروں، روایتی سیاسی پارٹیوں اور امیر سیاستدانوں کے خلاف مزاحمت دکھانے میں ناکام رہیں گے تاہم یہ ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ لبنان کے موجودہ سیاسی نظام میں شاید ایک چھوٹی سی تحریک پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

ع ب / م م / خبر رساں ادارے