1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

لیبیا کے حراستی مراکز میں 'تشدد‘ میں یورپی ملکوں کی ساز باز

15 جولائی 2021

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بحیرہ روم سے واپس لوٹا دیے جانے کے بعد لیبیا کے حراستی کیمپوں میں رکھے گئے لوگوں کے ساتھ ”ہولناک تشدد" میں ملوث حکام کے ساتھ یورپی ملکوں کے ”ساز باز“ کی مذمت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/3wV9W
Symbolbild Folter Afrika
ایمنسٹی نے کہا ہے کہ لیبیا کے حراستی مراکز میں مرد، خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے نئے شواہد ملے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/F. Buccialrelli

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جمعرات کے روز جار ی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بحیرہ روم سے واپس لوٹا دیے جانے کے بعد لیبیا کے حراستی مراکز میں رہنے والے مرد، خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی تشدد سمیت ہولناک خلاف ورزیوں کے نئے شواہد ملے ہیں۔ یورپی ریاستیں ان ہولناک خلاف ورزیوں کے لیے ذمہ دار حکام کے ساتھ ”ساز باز" کررہی ہیں۔ ایمنسٹی نے اس اقدام کی سخت مذمت کی ہے۔

حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم نے لیبیا میں حراستی کیمپوں میں رہنے والے تارکین وطن کی سن 2020اور سن 2021کی صورت حال کے حوالے سے ایک رپورٹ تیار کی ہے۔

یہ رپورٹ چودہ سے پچاس برس کی عمر کے درمیان کے 53 پناہ گزینوں اور تارکین وطن کے ساتھ بات چیت کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔ ان افراد کا تعلق بنیادی طورپر نائجیریا، صومالیہ اور شام سمیت متعدد ملکوں سے ہے۔ جن لوگوں کے ساتھ با ت چیت کی گئی ان میں سے بیشتر اب بھی لیبیا کے حراستی مراکز میں ہیں۔

Tschechien, Prag | Amnesty International Protest gegen Lager in Libyen
حراستی کیمپ کی ابتر حالت کے سبب انہیں بند کردینے کی آوازیں اٹھ رہی ہیںتصویر: David W Cerny/REUTERS

بنیادی ضرورتو ں کے عوض سیکس کا مطالبہ

ایک خاتون نے ایمنسٹی کو بتایا کہ حراستی کیمپ کے محافظوں نے اس سے کہا،”اگر تمہیں پینے کا صاف پانی اور بستروں کی ضرورت ہے تو مجھے اپنے ساتھ  سیکس کرنے دو، میں تمہیں آزاد کردو ں گا۔" مذکورہ خاتون ان متعدد خواتین میں سے ایک تھی جنہوں نے بتایا کہ محافظوں نے حراستی مراکز میں خواتین کے ساتھ ان کی بنیادی ضروریات مثلاً صاف پانی فراہم کرنے کے بدلے میں جنسی زیادتی کا شکار بنا یا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متعدد ایسے کیسز بھی سامنے آئے جن میں محافظوں نے حاملہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی، مردوں کو بے عزت کیا اور انہیں صرف زیر جامہ میں رہنے کے لیے مجبور کیا گیا، بچوں اور دیگر کے پوشیدہ اعضاء کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی اور ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا گیا۔

یہ حراستی کیمپ حال ہی میں لیبیا کی وزارت داخلہ کے زیر انتظام دیے گئے تھے لیکن ان کی ابتر حالت کے سبب انہیں بند کردینے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

Libyen Khoms Migranten neben Boot der Küstenwache
ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ جون کے اواخر تک تقریباً 6100 افراد کو حراستی کیمپوں میں پہنچا دیا گیا تھاتصویر: picture-alliance/AP/H. Ahmed

یہ سب یورپ کی مالی اعانت سے ہو رہا ہے

یورپی یونین اور اٹلی برسوں سے اس کام کے لیے مالی امداد فراہم اور کوسٹ گارڈز کی تربیت دینے کا کام کررہے ہیں تاکہ مہاجرین اور پناہ گزینوں کو بحیرہ روم پار کرکے یورپ میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔ رواں سال صرف چھ ماہ کے دوران کوسٹ گارڈز نے سمندر میں تقریباً پندرہ ہزار افراد کو پکڑ کر انہیں لیبیا واپس لوٹا دیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ جون کے اواخر تک تقریباً 6100 افراد کو حراستی کیمپوں میں پہنچا دیا گیا تھا۔

لیبیا میں باہم متحارب گروہو ں کے درمیان جنگ بندی برقرار رکھنے کے لیے اقو ام متحدہ کی حمایت والے امن منصوبے کے نفاذ کے باوجود  زمینی سطح پر مسلح گروپوں کا خاصہ دبدبہ ہے جس نے پناہ گزینوں اور مہاجرین کے لیے صورت حال کو انتہائی خطرناک بنا دیا ہے۔

حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم نے یور پ سے اپیل کی کہ وہ ”لیبا کے ساتھ تارکین وطن اور سرحد کے کنٹرول کے حوالے سے تعاون معطل" کردے۔

ج ا/ ص ز (اے ایف پی، روئٹرز)

پناہ گزینوں کی کشتی پر فائرنگ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں