1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیتھوینیا کو روزگار کی منڈی میں ’مہمان کارکنوں‘ کی ضرورت

30 ستمبر 2018

یورپی یونین کا رکن بننے کے بعد سے لیتھوینیا کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد دیگر یورپی ممالک میں جا بسی۔ اب اس ملک کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ’مہمان کارکنوں‘ پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/35jOK
Reportage Litauen Altstadt von Vilnius
تصویر: DW/M. Griebeler

لیتھوینیا یورپ کے جنوب میں واقع ایک چھوٹا سا ملک ہے جو سن 1991 میں سوویت یونین سے الگ ہوا تھا۔ اس وقت اس ملک کی آبادی سینتیس لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ لیتھوینیا سن 2004 میں یورپی یونین کا رکن بنا، جس کے بعد یہاں کے شہری بہتر مستقبل کی تلاش میں بڑی تعداد میں مغربی یورپی ممالک منتقل ہونا شروع ہو گئے۔ آج اس ملک کے باسیوں کی تعداد سینتیس لاکھ سے کم ہو کر محض اٹھائیس لاکھ رہ گئی ہے۔

دیگر ممالک ہجرت اور کم شرح پیدائش کے باعث سماجیات کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ سن 2050 تک لیتھوینیا کے اپنے شہریوں کی تعداد دو ملین سے بھی کم رہ جائے گی۔

لیتھوینیا کی معیشت بھی اس مسئلے کے سبب مشکلات کا شکار ہوئی ہے۔ تعمیر اور دیگر شعبوں میں ہنر مند افراد کی قلت پوری کرنے کے لیے لیتھوینیا کو اب دیگر ممالک کے ’مہمان کارکنوں‘ کو اپنے ہاں ملازمتیں فراہم کرنا پڑ رہی ہیں۔

یورپی یونین کے اس رکن ملک کی انڈسٹری ہنر مند افراد کی ضرورت پوری کرنے کے لیے یوکرائن اور بیلاروس جیسی پڑوسی ریاستوں کے شہریوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ اب تک لیتھوینیا میں کام اور رہائش کے عارضی اجازت نامے حاصل کرنے والوں کی بڑی تعداد کا تعلق انہی دو ممالک سے ہے۔

یوکرائن کے ہنر مند شہریوں کے لیتھوینیا کا رخ کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے روس کے ساتھ تنازعہ کے باعث یوکرائنی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ علاوہ ازیں لیتھوینیا میں اب بھی روسی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے اور یوکرائنی شہریوں کو یورپی یونین کی حدود میں داخل ہونے کے لیے پیشگی ویزے کی بھی ضرورت نہیں۔

سن 2015 میں یورپی یونین میں جاری مہاجرین کے بحران کے سبب لیتھوینیا متاثر نہیں ہوا۔ مشرقی وسطیٰ، افریقہ اور ایشیا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن لیتھوینیا کی بجائے جرمنی، فرانس اور دیگر یورپی ممالک کا رخ کرتے رہے۔ لیتھوینیا میں مہاجرین نہ ہونے کے سبب دائیں بازو کی عوامیت پسند اور اسلام مخالف تحریکیں اور سیاسی جماعتیں بھی مقبول نہیں ہو پائیں۔ گزشتہ انتخابات میں مقبول ترین عوامیت پسند جماعت بھی پارلیمان تک رسائی کے لیے مقرر کردہ چار فیصد کی حد کے قریب بھی نہیں پہنچ پائی۔

ش ح / ا ا (کونسٹانٹِن ایگرٹ)