1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مارچ کے بعد لڑکیوں کے اسکول کھول دیے جائیں گے، طالبان

17 جنوری 2022

افغانستان کے نئے حکمراں طالبان نے بین الاقوامی برادری کے اہم مطالبات میں سے ایک پر عمل درآمد کے لیے ٹائم لائن کا اعلان کر دیا۔ طالبان نے کہا کہ مارچ کے بعد ملک بھر میں لڑکیوں کے اسکول کھول دیے جانے کی امید ہے۔

https://p.dw.com/p/45cIx
Afghanistan Kabul | PK der Taliban: Sprecher Zabihullah Mujahid: Mullah Mohammad Hasan Akhundzada soll Taliban leiten
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

افغانستان میں وسط اگست میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک کے بیشتر علاقوں میں لڑکیوں کو ساتویں جماعت آگے کے اسکولوں میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ طالبان نے20 برس قبل اپنے پہلے دور اقتدار میں خواتین کے لیے تعلیم، ملازمت اور عوامی زندگی میں سرگرم حصہ لینے پر پابندی عائد کردی تھی۔ بین الاقوامی برادری کو خدشہ ہے کہ طالبان ایک بار پھر اسی طرح کے سخت اقدامات نافذ کرسکتے ہیں۔

بین الاقوامی برادری نے تاحال افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ عالمی برادری کا اصرار ہے کہ طالبان ملک میں جامع حکومت کے قیام کے علاوہ خواتین کو بھی حقوق دیں۔

طالبان کے نائب وزیر ثقافت و اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس (اے پی) کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ محکمہ تعلیم 21 مارچ کو افغانستان میں شروع ہونے والے نئے سال میں تمام لڑکیوں اور خواتین کے لیے تعلیمی اداروں کو کھولنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ لڑکیوں اور خواتین کے لیے تعلیم "حکومت کی صلاحیت کا سوال ہے۔"

Afghanistan Symbolbild Bildung Frauen
تصویر: Bulent Kilic/AFP

' ہم تعلیم کے خلاف نہیں'

طالبان رہنما نے کہا کہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے پوری طرح الگ الگ اسکول ہونے چاہئیں اور ہمارے لیے اب تک کی سب سے بڑی رکاوٹ لڑکیوں کے لیے ہاسٹلز کی تلاش یا تعمیر تھی۔ انہوں نے کہا کہ گھنی آبادی والے علاقوں میں صرف لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ

 الگ کلاس رومز کا ہونے ہی کافی نہیں ہے بلکہ اسکولوں کے الگ عمارتوں کی بھی ضرورت ہے۔

طالبان رہنما نے کہا،"ہم تعلیم کے خلاف نہیں ہیں۔"

طالبان کی جانب سے خواتین کی تعلیم میں رکاوٹ نہ بننے کے دعوؤں کے باوجود ملک کے 34 صوبوں میں سے 10 صوبوں کو چھوڑ کر دیگر تمام صوبوں میں ساتویں جماعت سے آگے کی کلاسز میں لڑکیوں کو اسکولوں میں آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

البتہ دارالحکومت کابل کی پرائیوٹ یونیورسٹیوں اور ہائی اسکولز میں تعلمی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری ہیں جہاں لڑکے اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ کلاس رومز بنائے گئے ہیں۔

ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ وہ پراُمید ہیں کہ نئے سال (نوروز) کے آغاز تک یہ مسائل حل کر لیں گے۔ تاکہ اسکول اور یونیورسٹیاں کھولی جاسکیں۔

Afghanistan | Afghanische Aktivistinnen protestieren gegen Taliban-Beschränkungen in Kabul
تصویر: Haroon Sabawoon/AA/picture alliance

طالبان عملی ثبوت دیں

بین الاقوامی برادری کا موقف ہے کہ وہ طالبان کو ان کے اعلانات اور وعدو ں کے بجائے ان کے عملی اقدامات کی بنیاد پر جانچیں گے۔

 بین الاقوامی برادری خواتین کی تعلیم اور طالبان کے دیگر دعوؤں کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کرتی رہی ہے۔ یہاں تک کہ وہ انسانی تباہی کو روکنے کے لیے اربوں ڈالر فراہم کرنے کے لیے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے سربراہ نے خبردار کیا تھا کہ لاکھوں افغان شہریوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

شدید سرد موسم کی وجہ سے تقریباً 30 لاکھ ایسے افغان بری طرح متاثر ہوئے ہیں جو جنگ، خشک سالی، غربت یا طالبان کے خوف کی وجہ سے اپنے گھر بار چھوڑ کر اپنے ہی ملک میں پناہ گزینوں کے طور پر رہ رہے ہیں۔ اس ماہ کے شروع میں اقوام متحدہ نے افغانستان کے لیے پانچ ارب ڈالر امداد کی اپیل کی تھی۔

Afghanistan PK der Taliban
طالبان رہنما نے کہا،"ہم تعلیم کے خلاف نہیں ہیں۔"تصویر: Rahmat Gul/dpa/AP/picture alliance

بیشتر افسران سابق حکومت کے اہلکار ہیں

امریکا سمیت دنیا کے کئی ممالک کو شکایت ہے کہ طالبان نے وعدے کے باوجود اپنی حکومت میں مختلف نسلی اقلیتوں کے علاوہ کسی بھی خاتون کو شامل نہیں کیا۔

 ذبیح اللہ مجاہد نے تاہم انٹرویو کے دوران کہا کہ اُن کے نائب وزیر خزانہ اور وزارتِ خزانہ میں کئی افسران وہی ہیں جو امریکی حمایت یافتہ سابق افغان حکومت کے دور میں تھے۔

انہوں نے کہا کہ سابق انتظامیہ کے ماتحت کام کرنے والے 80 فی صد سول اہل کار کام پر واپس آ چکے ہیں اور خواتین صحت، تعلیم کے شعبوں اور کابل ایئرپورٹ میں کسٹم اور پاسپورٹ کنٹرول کے شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔

ذبیح اللہ مجاہد نے طالبان کے ارکان کی جانب سے افغان شہریوں کو ہراساں کرنے کے کچھ واقعات کا اعتراف کیا جس میں نوجوانوں کی تذلیل اور ان کے بالوں کو زبردستی کاٹنا بھی شامل ہے۔ ان کا کہنا تھا، "اس طرح کے جرائم ہوئے ہیں لیکن یہ ہماری حکومت کی پالیسی نہیں ہے۔"انہوں نے مزید کہا کہ ذمہ داروں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ج ا/ ص ز (ایسوی ایٹیڈ پریس)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں