1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مالدووا میں پارلیمانی انتخابات

30 جولائی 2009

مشرقی یورپ کے ملک مالدووا میں بدھ کے روز پارلیمانی انتخابات کے لئے ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی شروع ہے۔ ان انتخابات میں گزشتہ آٹھ سال سےحکومت کرنے والی کمیونسٹ پارٹی کے مقابلے پر چار لبرل جماعتیں ہیں۔

https://p.dw.com/p/Izlp
مشرقی یورپ کے ملک مالدووا میں ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی کا عملتصویر: AP

مالدووا میں بدھ کے روز کی ووٹنگ کے بعد کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے جن چار فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہوئی ہے ان میں کمیونسٹ پارٹی کو اٹھاون فی صد ووٹ ملے ہیں۔ اِس کے مقابلے پر تین بڑی سیاسی جماعتوں کو معمُولی سی برتری اُس صورت میں حاصل ہو سکتی ہے اگر وہ اتحاد کرتی ہیں ۔ اتحاد قائم ہونے کا امکان زیادہ ہے۔

مشرقی یورپ کے ملک مالدووا کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ شہریوں نے ان انتخابات میں بھرپور حصہ لے کر کیا۔ ایک سال کے دوران ملک میں دوسری مرتبہ ہونے والے ان انتخابات میں ووٹنگ کا آغاز کافی سست رہا، تاہم آخری گھنٹوں میں ووٹنگ کی رفتارمیں بتدریج تیزی آتی رہی۔

Moldawien Wahlen Oppositionspolitiker Vlad Filat Flash-Galerie
مالدووا کے اپوزیشن لیڈرتصویر: AP

ان انتخابات میں لبرل جماعتیں سابق کمیونسٹ ریاست رومانیہ سے علیحدہ ہونے والے اس ملک کو مستقبل میں مغربی جمہوری نظام کے اصولوں پر وضع کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ دوسری طرف گزشتہ کئی سالوں سے مالدووا میں برسراقتدارکمیونسٹ صدرولادمیروورونن کی جماعت کو روس کی بھر پورپشت پناہی حاصل ہے۔ عوامی سروے کے مطابق ان انتخابات میں صدر وورونن کی سیاسی جماعت کو 30 فیصد تک ووٹ حاصل ہوسکتے ہیں۔

وورونن نے گزشتہ روز جب اپنا ووٹ ڈالا تو وہ اپنی پارٹی کی جیت کے لئے کافی پرامید تھے۔اس موقع پرانہوں نے ماسکو حکومت کو خیر خواہی کا پیغام بھجواتے ہوئے روس کو مالدووا کا سب سے اہم دوست ملک قراردیا۔ روس مالدووا کی 90 فیصد توانائی کی ضروریات پوری کرتا ہے، جبکہ ماسکو حکومت نے عالمی مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لئے مالدووا کی حکومت کو پانچ سو ملین ڈالر کے قرض کی فراہمی کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔

Moldawien Wahlen Präsident Vladimir Voronin Flash-Galerie
مالدووا کے صدرتصویر: AP

صدر وورونن نے رومانیہ کی حکومت سے کسی بھی قسم کے تعاون سے گزیر کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ مالدووا رومانیہ کے ماضی کا حصہ ہے اوراب یہ دونوں ملک کبھی ایک نہیں ہوسکتے۔ ماہرین کی رائے ہے کہ صدروورونن رومانیہ سے تعلقات کے اس لئے مخالف ہیں کہ مالدووا کی اپوزیشن جماعتوں کو رومانیہ کی حمایت حاصل ہے۔

اس سے پہلے اپریل میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کی ناکامی کا ذمہ دار صدروورونن نے لبرل جماعتوں کو ٹھہرایا تھا۔ انہوں گزشتہ انتخابات کی ناکامی پر کہا تھا:’’نوجوانوں کو سڑکوں پر کون لایا؟ جمہوریہ مالدووا میں پارلیمانی انتخابات کو ناکام کس نے بنایا؟ یوں سیاسی اورمعاشی حوالوں سے ملک کو غیرمستحکم کس نے کیا؟ ان اورباقی سارے سوالات کا جواب صرف ایک ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے ملک میں لبرل اپوزیشن کی وجہ سے ہوا۔‘‘

مالدووا کے صدرولادمیر وورونن نے ان انتخابات کے انعقاد کا اعلان ملک میں تین مہینے قبل ہونے والے مظاہروں کے بعد کیا تھا۔ ان مظاہروں میں ترقی پسند اپوزیشن اوراس کے حامیوں نے سڑکوں پر آکرصدر وورونن پر پارلیمانی انتخابات کے سہارے اپنے اقتدارکو طول دینے کی کوششوں کا الزام لگایا تھا اوران کی کمیونسٹ حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔

رپورٹ : انعام حسن

ادارت : عدنان اسحاق