1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرق وسطیٰ تنازعے سے نمٹنے کے لیے یورپ متحد ہو جائے، جرمنی

10 جنوری 2020

جرمنی نے ایران اور امریکا کے درمیان جاری کشیدگی کے تناظر میں زور دیا گیا ہے کہ یورپی یونین متحد ہو کر مشرقِ وسطیٰ میں جاری تناؤ کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرے۔

https://p.dw.com/p/3W03W
Heiko Maas in Tunesien
تصویر: Getty Images/AFP/F. Belaid


مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں اور اس تناظر میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی میں کمی کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یورپی یونین کے 28 رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کا ایک غیرعمومی اور ہنگامی اجلاس جمعے کے روز برسلز میں منعقد ہو رہا ہے۔ اس اجلاس میں امریکا اور ایران کے تنازعے کے علاوہ لبییا میں ترک عسکری مداخلت کے اعلان پر بھی گفت گو کی جا رہی ہے۔

مشرق وسطیٰ میں کشیدگی: ماسکو اور برلن قریب آ سکتے ہیں

ایران کے کروڑ پتی علماء، فوج اور زرمبادلہ کے حصول کی جنگ

یہ اجلاس ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے، جب گزشتہ ہفتے ایک امریکی فضائی حملے میں ایران کی القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ اس ہلاکت کے جواب میں ایران نے عراق میں دو امریکی عسکری اڈوں پر میزائل حملے بھی کیے تھے۔

جرمن وزیرخارجہ ہائیکو ماس نے اس اجلاس سے قبل مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی میں کمی کے لیے مشترکہ یورپی حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا۔ جرمن نشریاتی ادارے ریڈاکسیون نیٹسویرک ڈوئچلانڈ سے بات چیت میں ماس کا کہنا تھا، ''جمعے کے روز ہمارا بنیادی ہدف یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں تناؤ میں کمی کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل وضع کریں۔‘‘

پاکستان اور افغانستان سے ایران کیا توقع کر رہا ہے؟

یورپی یونین کی کوشش ہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان جاری کشیدگی میں مزید اضافہ نہ ہو۔ گو کہ واشنگٹن اور تہران کی جانب سے ایسے اشارے ملے ہیں کہ وہ اس کشیدگی میں کمی چاہتے ہیں، تاہم یورپی یونین کی خواہش ہے کہ معاملات کسی جنگ کی جانب نہ بڑھ جائیں اور خطے میں جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ سے بچا جائے۔

یورپی رہنما کو خدشات لاحق ہیں کہ اگر عراق امریکا اور ایران کے درمیان تنازعے میں میدان جنگ بنا، تو وہاں دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جاری لڑائی متاثر ہو گی۔ ہائیکو ماس کا کہنا ہے، ''بہ طور یورپی ہم تمام فریقین سے مضبوط سفارتی رابطے میں ہیں۔ ہم اس معاملے پر فقط اس وقت اثرانداز ہو سکیں گے، اگر ہم متفقہ لائحہ عمل اپنائیں۔‘‘

ع ت، ع ا (ڈی پی اے، روئٹرز، اے ایف پی)