1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصر کا سياحتی شعبہ خطرے کی زد ميں

7 دسمبر 2011

پچھلے دنوں مصر سے خونيں مظاہروں اور ہنگاموں کی جو خبريں مليں، اُنہوں نے مصر کی سيروسياحت کرنے والوں کوپھرخوفزدہ کر ديا۔ ان ہنگاموں سے کچھ ہی قبل مصر جانے والے سياحوں کی تعداد ايک بار پھر بڑھ گئی تھی۔

https://p.dw.com/p/13OJL
دہاب کی ساحلی تفريح گاہ
دہاب کی ساحلی تفريح گاہتصویر: AP

دہاب مصر ميں وہ سياحتی مقام ہے، جہاں کے رہنے والوں کو سياحت کے اتار چڑھاؤ کا کافی تجربہ ہے۔ يہ چھوٹا سا سياحتی مقام بحيرہء احمر کے ساحل پر واقع ہے۔ يہاں سياح ساحل پر چہل قدمی کرتے، ريستورانوں ميں مقامی کھانوں سے لطف اٹھاتے اور دکانوں ميں خريداری کرتے نظر آتے ہيں۔

سن 2006 ميں خودکش حملہ آوروں نے اس پرسکون ساحلی تفريح گاہ کا سکون تين دھماکوں کے ذريعے درہم برہم کر ديا تھا۔ 20 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن ميں سے اکثر مقامی لوگ تھے۔ اس کے ساتھ ہی يہاں سياحت ميں بہت زيادہ کمی آ گئی تھی۔ ايک جرمن سياح نے بتايا: ’’ دہاب کے بم دھماکوں کے بعد صرف پچھلے سال پہلی مرتبہ يہاں پھر سے رونق تھی اور سب ہی مطمئن تھے۔ ليکن پھر يہ انقلاب برپا ہو گيا۔‘‘

دہاب، دہشت گردانہ حملوں کے بعد
دہاب، دہشت گردانہ حملوں کے بعدتصویر: AP

ايک چھوٹے سے ريستوران کے مالک اشٹيفن بوئملر نے کہا کہ انقلاب شروع ہونے کے ايک ہفتے بعد ہی دہاب ويران ہو گيا تھا۔ سياحت کا سلسلہ مکمل طور پر رک گيا تھا۔ غوطہ خوری کے ايک کلب اور اس سے ملحقہ ريستوران کے مالک السعيد نے کہا: ’’ ہميں اس سے خوف ہے۔ لوگ ٹيليوژن پر تصاوير ديکھتے اور سوچتے ہيں کہ مصر غير محفوظ ہے، انقلاب پھر شروع ہو گيا ہے۔‘‘

ليکن السعيد نے کہا کہ سياحوں کو قاہرہ ميں تحرير چوک پر جانے کی تو ضرورت ہی نہيں ہے۔ بحيرہء احمر کے سياحتی مقامات محفوظ ہيں۔ اس کے علاوہ انقلاب غير ملکيوں يا سياحوں کے خلاف تو ہے ہی نہيں۔

دہاب کا ايک ہوٹل
دہاب کا ايک ہوٹلتصویر: IMPORT

السعيد کو مصر ميں ہر جگہ موجود کرپشن کے خاتمے کی اميد ہے۔

ايک اور دکان کے مالک نے کہا کہ وہ انقلاب کی کاميابی کے ليے اپنی امدنی ميں کمی کا نقصان برداشت کرنے کو تيار ہے۔ بہت سے لوگ حالات ميں حقيقی بہتری کے ليے قربانياں دينے کو تيار ہيں۔ ليکن اُن کا يہ بھی کہنا ہے کہ پورا سياسی نظام ہی تبديل ہونا چاہيے اور صرف چہرے بدل جانے سے مسائل حل نہيں ہو جائيں گے۔

رپورٹ: نيلس ناؤمن / شہاب احمد صديقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں