1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصری اليکشن، عبدالفتح السيسی بھاری اکثريت سے کامياب

عاصم سليم4 جون 2014

مصر ميں گزشتہ ہفتے ہونے والے صدارتی انتخابات ميں ملکی فوج کے سابق سربراہ عبدالفتح السيسی کو فاتح قرار دے ديا گيا ہے۔ مصر کے نئے سربراہ کے طور پر السيسی نے اپنے پہلے خطاب ميں ملک کی تعمير نو پر زور ديا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CBXt
تصویر: Reuters

مصر کے اليکشن کميشن کے مطابق ڈالے جانے والے کُل ووٹوں ميں سے 96.6 فيصد السيسی کے حق ميں ڈالے گئے، جس حساب سے 23.7 ملين لوگوں نے السيسی کے حق ميں فيصلہ کيا۔ کميشن کے سربراہ انور رشاد الاسی نے دارالحکومت قاہرہ ميں گزشتہ روز منعقدہ ايک پريس کانفرنس ميں انتخابی نتائج کا اعلان کرتے ہوئے سابق فوجی سربراہ کو فاتح قرار ديا۔ السيسی کے واحد حريف حمدين صباحی کو صرف تين فيصد ووٹ ملے۔

اليکشن کميشن کے مطابق تين روزہ انتخابات ميں ووٹر ٹرن آؤٹ کی شرح 47.45 رہی۔ اليکشن کے ليے رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 54 ملين تھی۔ اسلام پسند پارٹی اخوان المسلمون نے ان انتخابات کا بائيکاٹ کيا تھا۔

Ägypten Konflikt von Mursi-Gegnern und Unterstützern
مصر ميں پچھلے ايک سال کے دوران چودہ سو افراد ہلاک ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa

انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد السيسی نے اپنے ٹيلی وژن خطاب ميں ملک کی تعمير نو پر زور ديا۔ انہوں نے مصری عوام پر زور ديا کہ وہ ملک ميں قيام امن اور سلامتی کے ليے کام کريں۔ اس موقع پر انہوں نے کہا، ’’مستقبل ايک کورے کاغذ کی مانند ہے اور يہ ہمارے ہاتھوں ميں ہے کہ ہم اس پر کيا لکھيں ۔۔۔ روٹی، آزادی، انسانی وقار يا سماجی انصاف۔‘‘ سابق فوجی سربراہ کے بقول مصر کے ليے کام کرنے اور اسے بہتر مستقبل اور استحکام کی طرف لے جانے کا وقت آ گيا ہے۔ انہوں نے اپنے حق ميں ووٹ ڈالنے والے عوام کا شکريہ ادا بھی کيا۔

مصر ميں السيسی کی کاميابی کے اعلان کے فوری بعد سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے ايک ڈونرز کانفرنس کا اعلان کر ديا ہے۔ اس کا مقصد سياسی و اقتصادی بحران کے شکار ملک مصر کی مدد کرنا ہے۔ رياض حکومت اخوان المسمون کی سخت مخالف ہے۔

يہ امر اہم ہے کہ ملک ميں سياسی افراتفری کے سبب گزشتہ برس جولائی ميں السيسی نے اسلام پسند صدر محمد مرسی کو معزول کر ديا تھا۔ السيسی اس وقت فوج کے سربراہ تھے۔ مرسی کی معزولی کے بعد مصر ميں سياسی بحران کی سی کيفيت پيدا ہو گئی اور اخوان المسمون کے حاميوں کی جانب سے ملک گير احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گيا۔ عبوری حکومت نے مظاہرين کے خلاف طاقت کا استعمال کيا اور بد امنی کے نتيجے ميں آئندہ کچھ ماہ ميں قريب 1400 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ 15,000 کو حراست ميں لے ليا گيا۔

اس سياسی بد امنی سے مصر کی معيشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ السيسی نے رواں برس ہی صدارت کے عہدے کے ليے اميدوار بننے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے فوج سے استعفٰی دے ديا تھا۔ انہيں عوام کے کچھ حصوں ميں ملکی استحکام اور اقتصادی ترقی کے ليے ايک قوت کے طور پر ديکھا جاتا ہے۔