1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصری سول سوسائٹی کے لیے مجوزہ بیڑیاں

5 مارچ 2013

غیر سرکاری تنظیموں یا این جی اوز کے بغیر کسی بھی جمہوری ریاست کا کام نہیں چل سکتا تاہم خاص طور پر انقلاب کے بعد کے مصر میں ایک نئے مجوزہ قانون کے ذریعے ان تنظیموں کی سرگرمیوں کو محدود بنائے جانے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/17qV8
تصویر: Getty Images

یہ این جی اوز یا غیر سرکاری تنظیمیں ہی ہوتی ہیں، جو کسی بھی معاشرے میں انسانی حقوق اور پریس کی آزادی کے حق میں یا پھر بدعنوانی کے خلاف جدوجہد کرتی ہیں۔ تاہم اگر مصر میں این جی اوز کے خلاف مجوزہ قانون منظور ہو گیا تو پھر عملاً وزارتِ داخلہ اور خفیہ پولیس اس امر کا فیصلہ کریں گی کہ آیا این جی اوز کو رجسٹریشن کی اجازت دی جائے۔ پھر سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ہو گی، ان تنظیموں کا سرمایہ قومی تحویل میں لے لیا جائے گا اور بیرون ملک سے آنے والی رقوم وصول کرنے کے لیے سلامتی کے اداروں کی منظوری لینا پڑے گی۔ اس طرح ریاست اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ایسی تنظیموں کی سرگرمیوں پر فیصلہ کن انداز میں اثر ڈال سکے گی۔

مصری اپوزیشن کے ارکان صدر محمد مرسی کا پتلا اٹھائے اُن کے اقدامات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے
مصری اپوزیشن کے ارکان صدر محمد مرسی کا پتلا اٹھائے اُن کے اقدامات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئےتصویر: Reuters

اس مجوزہ قانون کے مسودے میں اتنی زیادہ پابندیوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ قاہرہ میں متعینہ جرمن سفیر بھی خاموش نہیں رہ سکے اور اُنہوں نے مقامی پریس میں انہیں ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ قاہرہ انسٹیٹیوٹ برائے ہیومن رائٹس اسٹڈیز CIHRS سے وابستہ محمد زارا بتاتے ہیں:’’محمد مرسی صدر ہیں اور اُن کی پارٹی نے حکومت تشکیل دے رکھی ہے۔ اُن کا مفاد اِسی میں ہے کہ این جی اوز کی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالی جائے، خاص طور پر ایسی این جی اوز کے کام میں، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں یا پھر بدعنوانی کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔‘‘

تاہم اس مجوزہ قانون کی زَد میں بین الاقوامی تنظیمیں اور جرمن سیاسی فاؤنڈیشنز بھی آئیں گی۔ جرمن کرسچین ڈیموکریٹک یونین CDU سے نظریاتی قربت رکھنے والی کونراڈ آڈیناؤر فاؤنڈیشن KAS کے دفاتر کی تلاشی کے بعد سے جرمن فاؤنڈیشنز ویسے ہی بہت محتاط ہو گئی ہیں۔ محمد زارا کے مطابق نئے مجوزہ قانون کی منظوری کی صورت میں غیر ملکی تنظیموں کی نگرانی کا کام زیادہ سے زیادہ مصری محکموں کی نگرانی میں چلا جائے گا، جو پھر یہ فیصلہ کر سکیں گے کہ آیا یہ تنظیمیں یا ان کی سرگرمیاں ’مصری معاشرے کی ضروریات سے مطابقت‘ رکھتی ہیں:’’دوسری صورت میں اُنہیں اپنی غیر ملکی مرکزی تنظیموں سے رقوم وصول کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اگر یہ تنظیمیں کسی بیرونی حکومت سے پیسہ لیں گی یا کسی سیاسی جماعت سے نظریاتی وابستگی رکھتی ہوں گی، جیسے کہ جرمن فاؤنڈیشنز ہیں، تو اُنہیں مصر میں اپنا دفتر کھولنے کی اجازت نہیں ہو گی۔‘‘

مصری دارالحکومت قاہرہ کا التحریر اسکوائر (آزادی چوک) احتجاج کے مرکز کی حیثیت اختیر کر گیا ہے
مصری دارالحکومت قاہرہ کا التحریر اسکوائر (آزادی چوک) احتجاج کے مرکز کی حیثیت اختیر کر گیا ہےتصویر: Reuters

تاہم جہاں تک ان فاؤنڈیشنز کا تعلق ہے، ایک دو طرفہ حکومتی سمجھوتے کے ذریعے اِنہیں خصوصی تشخص مل سکتا ہے۔ ابھی جنوری کے اواخر میں KAS کو جرمن مصری ثقافتی سمجھوتے کے دائرے میں شامل کر لیا گیا۔ اس سمجھوتے کے تحت مصر اس طرح کی فاؤنڈیشنز کی سرگرمیوں کی معاونت کرنے کا پابند ہو گا۔ تاہم آیا ان فاؤنڈیشنز کی سرگرمیوں کو واقعی ثقافتی سرگرمیاں کہا جا سکتا ہے، یہ کہنا مشکل ہے۔ ایسے میں آئندہ بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان تنظیموں کی سرگرمیوں کو واقعی تحفظ حاصل ہو گا۔

مصر میں ہونے والے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اخوان المسلمون سول سوسائٹی کی آزادیوں کو بڑے پیمانے پر محدود کر دینا چاہتے ہیں۔ محمد زارا کے مطابق اس کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ اخوان المسلمون کی قانونی کمیٹی کے چیئرمین نے اس مجوزہ قانونی مسودے کا دفاع کیا ہے۔ زارا بتاتے ہیں:’’کمیٹی چیئرمین نے کہا کہ اگر این جی اوز کو بغیر کسی جانچ پڑتال کے بیرونی دنیا سے رقوم وصول کرنے کی اجازت دے دی جائے گی تو انہیں اسرائیل، یہودیوں ا ور صیہونیوں سے پیسہ ملنا شروع ہو جائے گا، جس کی مدد سے وہ مصر کو تباہ کر سکیں گی یا یہاں فساد بپا کر سکیں گی۔‘‘

خود ان جرمن فاؤنڈیشنز کے لیے یہ موضوع کتنا حساس ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تینوں جرمن فاؤنڈیشنز میں سے کوئی بھی اس موضوع پر کھل کر بیان دینے کے لیے تیار نہیں تھی۔

M.Sailer/aa/zb