1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

معصوم بچوں کو کیا پتا؟ سوچنا تو معاشرے کو ہے!

15 اپریل 2020

موہیمن کی عمر گیارہ برس ہے۔ وہ ایک ذہین اسٹوڈنٹ ہے اور ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔ لیکن ایک ناگہانی حادثے نے اس کی زندگی اجیرن کر دی اور اب وہ کسی چیز پر توجہ مرکوز نہیں کر سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3avgJ
Pakistan Skandal um Kindesmissbrauch
تصویر: Reuters/M. Raza

پاکستانی شہر پاکپتن کا رہائشی موہیمن اب دوبارہ مدرسہ جانا ہی نہیں چاہتا۔ رواں سال کے آغاز پر ایک مذہبی استاد نے اسے جنسی زیادتی نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔ اس کم عمر کو یہ تو علم نہ ہو سکا تھا کہ مدرسے کے مولوی نے اسے جنسی نشانہ بنانے کے لیے واش روم میں بند کیا تھا لیکن اس واقعے کی دہشت اور خوفناکی اس کے ذہن میں سما سی گئی یے۔

پاکستانی مدرسوں میں اس طرح تشدد کا نشانہ بننے والا موہیمن اکیلا ہی بچہ نہیں۔ ایسے بہت سے واقعات ہیں، جو سالانہ بنیادوں پر پولیس کو رپورٹ کیے جاتے ہیں۔ موہیمن کی خالہ شاذیہ نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو میں کہا کہ پاکستانی مذہبی مدرسوں میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ''وبا‘‘ بن چکی ہے۔

شازیہ نے دعویٰ کیا کہ وہ موہیمن کو جنسی نشانہ بنانے کی کوشش کرنے والے مولوی معید شاہ کو بچپن سے جانتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ مولوی "عادی غلط کار" ہے، جو بچیوں کو قمیضیں اتارنے کے لیے بھی کہتا تھا۔

شاذیہ کے بقول، وہ نہ صرف لڑکوں کے ساتھ غلط کاری کر چکا ہے بلکہ کم از کم دو یا تین لڑکیوں کو بھی نشانہ بنا چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس نے ایک لڑکی کو اتنا تشدد کا نشانہ بنایا تھا کہ اس لڑکی کی کمر ہی ٹوٹ گئی تھی۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق رواں برس پولیس تھانوں میں ایسی درجنوں ایف آئی آرز درج کرائی گئی ہیں، جن میں پاکستان بھر میں مدرسوں یا مذہبی سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی، تشدد اور ریپ جیسے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ اے پی نے اپنی اس رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں زیادتی کا نشانہ بننے والے بچوں اور ان کے والدین یا رشتہ داروں سے انٹرویوز بھی کیے ہیں۔

پاکستان بھر میں بائیس ہزار سے زائد رجسٹرڈ مدرسے فعال ہیں، جہاں دو ملین سے زائد بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایسے بہت سے اور مدرسے بھی پسماندہ گاؤں دیہات میں قائم کیے گئے ہیں، جو رجسٹرڈ نہیں کرائے گئے۔ ایسے مدرسوں میں کسی کی شکایت کوئی سننے والا نہیں۔ ایسے مدرسوں میں بچوں کو مفت رہائش اور کھانا دیا جاتا ہے اور غربت کے مارے والدین اسے ایک نعمت تصور کرتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بچے مذہبی تعلیم حاصل کرتے ہوئے 'آخرت سنوار‘ رہے ہیں۔

اگست سن دو ہزار اٹھارہ میں اقتدار سنبھالنے والے وزیر اعظم عمران خان نے ان مدرسوں میں احتساب کا عمل نافذ کرنے کی کوشش کا وعدہ کیا تھا لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔

محکمہ پولیس کا کہنا ہے کہ مدرسوں میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں۔ درجنوں شکایات کے باوجود کسی ملزم کو سزا نہیں سنائی جا سکی ہے۔

پاکستان پولیس کے مطانق مذہبی طبقہ انتہائی طاقت ور ہے اور جب کسی ایک کے خلاف ایسی کوئی شکایت منظر عام پر آتی ہے تو یہ سب ایک ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ ایسے الزامات کے جواب میں متاثرین کو توہین مذہب یا رسالت کا مرتکب بھی قرار دے دیتے ہیں۔

Madrassa in Pakistan
مذہبی مدرسوں میں لاکھوں بچیاں بھی پڑھتی ہیںتصویر: AP

ڈپٹی پولیس سپریٹینڈنٹ صادق بلوچ نے اے پی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ متاثرہ گھرانے خوف کے مارے ملزمان کو معاف بھی کر دیتے ہیں جبکہ انہیں ساتھ ہی معاشرتی سطح پر بدنامی کا خوف بھی ہوتا ہے۔ جب متاثرین ہی تصفیہ کر لیں تو قانونی کارروائی بھی روکنا پڑ جاتی ہے۔

صادق بلوچ نے کہا، ''کچھ ملاؤں کی منافقت ہے کہ وہ داڑھی اور جبے کے ساتھ بند کمروں میں ایسے گھناؤنے اعمال سر انجام دے رہے ہیں جبکہ عوامی سطح پر ایسے لوگوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، جو کلین شیو، لبرل اور کھلی سوچ کے مالک ہیں۔‘‘

ڈی ایس پی بلوچ نے مزید کہا کہ معاشرے میں بہت سے ایسے لوگ ہیں، جو مذہبی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور غیر اخلاقی اعمال کے مرتکب ہوتے ہیں۔

’’ایسے لوگوں کو پھانسی دینا چاہیے‘‘

محکمہ پولیس کے مطابق اسے اندازہ ہی نہیں ہے کہ سالانہ کتنے بچوں کو اس طرح جنسی ہوس اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ڈی ایس پی صادق بلوچ کے مطابق جتنے کیس درج کروائے گئے ہیں، وہ تو صرف اس معاملے کی سنگینی کا احساس ہی دلاتے ہیں۔

شمالی کوہستان کے علاقے سے تعلق رکھنے والا آٹھ سالہ یاؤس ایسے ہی بچوں میں سے ایک ہے، جنہیں مدرسے میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ یاؤس کے غریب والد نے اسے مانسہرہ کے ایک مدرسے میں داخل کرا رکھا تھا، جہاں گزشتہ برس دسمبر میں قاری شمس الدین نے اسے زیادتی کا نشانہ بنایا۔

یاؤس نے اے پی کو بتایا کہ مدرسے میں چھٹیاں ہوئیں تو وہ واپس گھر نہ جا سکا۔ اسی دوران قاری شمس الدین نے اسے ایک کمرے میں دو دن تک بند رکھا اور اسے متعدد مرتبہ ریپ کیا۔ جب بچے کی طبعیت خراب ہوئی تو اس خوف کے مارے وہ اسے ہسپتال لے گیا کہ کہیں بچہ مر ہی نہ جائے۔

ہسپتال میں ڈاکٹروں کو شبہ ہوا تو انہوں نے چیک اپ کیا اور معلوم ہوا کہ بچے کا ریپ کیا گیا ہے۔ ڈی این اے میچ ہوا تو قاری شمس الدین کو گرفتار کر لیا گیا۔ تاہم یاؤس کا چچا یہ ماننے کو تیار نہیں کہ بچے کا ریپ کیا گیا ہے۔ اس نے ڈاکٹروں سے التجا کہ کہ اس معاملے کو دفن کر دیا جائے ورنہ وہ اپنے علاقے میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔

ڈاکٹر فیصل منن سالارزئی نے اے پی سے گفتگو میں کہا کہ جب یاؤس کو ہسپتال لایا گیا تو اس کے جسم پر تشدد کے نشانات واضح تھے۔ قاری شمس الدین جب بھی یاؤس کے قریب جانے کی کوشش کرتا تو یہ بچہ خوفزدہ ہو کر چیخنے لگتا۔

یہ سب کچھ ہونے کے بعد بھی مدرسہ تعلیم القران کا عملہ بضد ہے کہ قاری شمس الدین نے کچھ نہیں کیا بلکہ یہ سب جھوٹے اور بے بنیاد الزامات ہیں۔ اس مدرسے کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ دراصل اسلام مخالف عناصر قاری شمس الدین کے خلاف ہیں۔ مدرسہ قاری شمس الدین کو معصوم قرار دیتا ہے۔ ساتھ ہی علاقے کے لوگوں کا بھی کہنا ہے کہ قاری شمس الدین کے خلاف یہ الزامات مذہبی رہنماؤں کو بدنام کرنے اور اسلام کی عظمت کو چیلنج کرنے کی کوشش ہے۔

دوسری طرف یاؤس کے والد عبدالقیوم نے اے پی کو بتایا کہ اس واقعے کے بعد وہ اتنے شرمندہ تھے کہ تین ماہ تک انہوں نے اپنے بیٹے سے بات تک نہ کی۔ انہوں نے گڑگڑا کے التجا کی کہ مجرم کو پھانسی پر چڑھا دیا جائے۔

Afghanistan Polizei befreit Kinder aus den Händen der Taliban
پاکستان میں لاکھوں بچے باقاعدہ اسکولوں کی بجائے مذہبی مدرسوں میں مذہبی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ تصویر: Getty Images/AFP/Z. Hashimi

''مجھے معاف کر دو‘‘

متعدد مذہبی اساتذہ صرف لڑکوں کو ہی نہیں بلکہ بچیوں کو بھی نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے۔ مصباح جیسی کئی بچیاں بھی جنسی زیادتی کا نشانہ بن چکی ہیں۔ جنوبی پنجاب کے گاؤن بستی کسی کے رہائشی محمد اقبال کو علم نہیں کہ ان کی بیٹی کی درست عمر کیا ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ مصباح اس وقت گیارہ برس کی ہے۔

مصباح نے بتایا کہ مسجد کے ساتھ واقع ایک کمرے میں اسے ریپ کیا گیا۔ یہ بچی گزشتہ تین برس سے وہاں قرآن پڑھنے جاتی تھی۔

مصباح کے بقول ایک دن قرآن پڑھنے کے بعد وہ مسجد میں جھاڑو دینے کے لیے رک گئی۔ دیگر بچے واپس گھر جا چکے تھے اور وہ اکیلی ہی وہاں موجود تھی۔

مصباح نے بتایا کہ قاری اسے مسجد سے ملحق ایک کمرے میں لے گیا، جہاں اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔ مصباح نے کہا کہ وہ چیختی رہی اور روتی رہی لیکن قاری نے اس کی ایک نا سنی۔

مصباح کے چچا تنویر نے اے پی کو بتایا کہ وہ کالج سے واپس گھر جا رہا تھا کہ حاجت محسوس ہونے پر وہ مسجد کی ٹوائلٹ میں چلا گیا، واپسی پر اس نے مسجد میں ایک بچے کے جوتے دیکھے اور اسے کچھ عجیب سے آوازیں سنائی دی۔ جب وہ آوازوں کا تعاقب کرتا ہوا، کمرے میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ قاری اور اس کے بھتیجی برہنہ حالت میں وہاں موجود تھے۔

تنویر نے بتایا کہ تب قاری نے اسے دیکھتے ہی معافیاں مانگنا شروع کر دیں۔ اس واقعے کے بعد قاری کو گرفتار کر لیا گیا تھا تاہم بعد ازاں وہ ضمانت پر رہا ہو گیا۔

''ایسے شیطان کو کھلا نہیں رہنا چاہیے‘‘

موہیمن کی خالہ شاذیہ نے بتایا کہ موہیمن کو ریپ کا نشانہ بنانے کی کوشش کرنے والے قاری کی کوشش ہے کہ کیس آگے نہ بڑھایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ محلے والے بھی ان کو سمجھانے آتے ہیں کہ معید شاہ کو معاف کر دیا جائے۔ مقامی پولیس کے مطابق ملزم ابھی تک مفرور ہے۔ شاذیہ کے بقول لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ غریب ہیں اور دباؤ ڈال کر یہ معاملہ رفع دفع کیا جا سکتا ہے۔

تاہم شاذیہ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا، ''ایسے شیطان کو کھلا نہیں رہنا چاہیے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ موہیمن کے والد نے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ اس کیس کو آگے لے کر جائیں گے۔

گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ پولیس ملزم کی تلاش میں تیزی نہیں دیکھا رہی ہے۔ کئی لوگوں نے جب واش روم کا دروازہ توڑ کر موہیمن کو معید شاہ سے بچایا تھا تو کچھ لوگوں نے موبائل فون سے ویڈیوز بھی بنائی تھیں، جو بطور ثبوت پولیس کو جمع کرائی جا چکی ہیں۔