1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملٹری، میزائل اور کھیرتھر کے بچے

16 اکتوبر 2018

آٹھ اکتوبر کی شب سندھ کے ضلع دادو میں کھیرتھر پہاڑی سلسلے میں جوہی کے قریب لوگوں نے فضا سے ایک شعلہ لپکتا دیکھا، جو ایک بڑے دھماکے کے ساتھ پہاڑوں میں گم ہو گیا۔ ایسی آواز سے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔

https://p.dw.com/p/36der
Ein pakistaniches Kind
تصویر: hassan Mujtaba

دوسرے روز صبح  بھیڑ بکریاں چرانے والے بچوں نے انہی پہاڑوں سے گھرے ایک  گاؤں کھندانی میں ایک نامعلوم دھات کے ٹکڑے دریافت کیے۔ وہ دھات کے ٹکڑے اسی شعلے اور دھماکے  کا حصہ تھے، جو لوگوں نے گزشتہ شب علاقے میں سنے اور دیکھے تھے۔ اسی دن پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یا آئی ایس پی آر (انٹر سروسز پبلک ریلیشنز) نے اسلام آباد سے میڈیا کو ایک بیان اور یو ٹیوب پر وڈیو جاری کی تھی، جس میں قوم کو یہ ’’نوید‘‘ سنائی گئی تھی کہ پاکستان کے میزائل سسٹم نے غوری میزائل کا کامیاب تجربہ کر لیا ہے۔ اگرچہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں قوم کو غوری میزائل چھوڑے جانے اور گرنے کی مقام اور منزل نہیں بتائے گئے تھے۔ لیکن اسلام آباد سے تیرہ سو میل دور کھیر تھر کے پہاڑی سلسلے میں لوگوں نے بھانپ لیا کہ یوٹیوب میں ’’کامیاب میزائل‘‘ کے گرنے والی سر زمین وہی کھیر تھر کا پہاڑی سلسلہ دکھائی دیتی ہے۔ اس سے بیشتر دو ہزار بارہ میں بھی اس طرح کے دھماکے شعلے اور دھات کے ٹکڑے کھیر تھر میں آن گرے تھے اور  آئی یس پی آر نے مانا تھا کہ وہ ساز و سامان انہی کا تھا لیکن تجربہ ناکام ہوا تھا۔ یعنی کہ پوٹھوہار سے چلا اور کھیر تھر میں گرا۔

کئی دنوں سے پاکستان نے اپنی فوج کی پلٹونوں اور ہتھیاروں کے نام اسلامی تاریخ کے متنازعہ کرداروں و فاتحین کے نام پر رکھے ہوئے ہیں۔ غزنوی، غوری، قاسم وغیرہ وغیرہ۔ پھر وہ ہتھیار میزائل ہوں کہ ٹینک یا جنگی جہاز، پاکستانی شہروں کے چوکوں چوراہوں اور انیس سو اٹھانوے میں کیے گئے ایٹمی دھماکوں کے تابکاری اثرات زدہ چاغی کے پہاڑوں کے پتھر متمول گھروں  کے باسیوں نے اپنے ڈرائنگ روموں میں قومی یادگار و تزیئن کی طور پر سجا رکھے ہیں۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ پھر بھارت نے اپنے ہتھیاروں کے نام راجہ پرتھوی، اگنی یا کہ ’’لٹل بدھا‘‘ رکھے ہیں۔

Hasan Mujtaba
حسن مجتبیٰتصویر: Privat

مگر جوہی تو کوئی بڑا شہر نہیں۔ یہ پاکستان کو اس کے جنوب میں ایک اور شورش زدہ صوبے بلوچستان کے ذریعے افغانستان اور ایران سے ملاتا ہوا ناقابل تسخیر پہاڑی سلسلہ ہے، جسے کاچھو اور کھیر تھر کہا جاتا ہے۔ بلوچستان، جہاں خود کو سرمچار کہلانے والے بلوچ علیحدگی پسندوں اور پاکستانی فوج کے درمیان گوریلا جنگ جاری ہے لیکن ایسی جنگ جو شاذ و نادر ہی رپورٹ ہوئی ہے۔ پاکستان میں مقامی یا وہاں کی ’’قومی‘‘ پریس ایسی کوئی خبر دینے یا لکھنے سے قاصر ہوتی  ہے، جو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے دی گئی خبر یا ’’بیانیے‘‘ سے ہٹ کر ہو۔ سارا قضیہ  بیانیے  پر قبضے کا ہے۔ جس بھی مقامی صحافی نے بلوچستان  میں جاری ایسی جنگ کی خبریں فوجی بیانیے یا پھر  سرمچاروں کے نقطہ نظر سے ہٹ کر دیں، وہ جان سے گیا۔ یہی وجہ تھی کہ جب کھیر تھر کے گاؤں کھندانی کے چرواہے بچوں کے ہاتھ میزائل کے  ڈھانچے کے دھات نما ٹکڑے ملے تو ’’سینہ گزٹ‘‘ کے ذریعے ایسی خبر اور تصویریں ہمیں سات سمندر پار بھی ملی۔ مجھے کھیر تھر سے ایک مقامی رہائشی نے بتایا، ’’جی ہاں یہ شعلہ بار دھماکہ پہاڑوں میں گاجی شاہ  درگاہ کے مشرق میں ہوا ہے۔‘‘  گاجی شاہ کھیرتھر اور کاچھے میں ایک مشہور ولی کی درگاہ ہے، جہاں جن ساز سرندہ کے ذریعے نکالنے والے عاملوں کا ہر سال میلہ منعقد ہوتا ہے۔ خاص طور وہاں عاملوں کے پاس  مریض عورتیں لائی جاتی ہیں۔

جوہی میں کئی دنوں سے فوجی اور اقتصادی سرگرمیاں جاری ہیں لیکن لوگ ہیں کہ ان کی باتیں سرگوشیوں میں کرتے ہیں۔ فوج نے وہاں کھیرتھر کی پہاڑوں میں یورینیم اور غیر ملکی کثیرالاقوامی کمپنیوں نے تیل اور گیس کے ذخائر دریافت کیے ہیں۔  نوے کی دہائی میں وہاں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی دورہ کیا تھا۔ راتوں کو دھماکے سنے جاتے ہیں اور دن کو نچلی پرواز کرتے ہوئے تربیتی جنگی طیارے۔ آسٹریلوی  اور پولش کمپنیاں تیل گیس کے ذخائر رکھتی ہیں، مقامی سرداروں اور منتخب نمائندے ان سے بھتہ جمع کرتے ہیں لیکن مقامی کھیرتھر اور کاچھو بشمول جوہی کے مقامی لوگ بوند بوند پانی کو ترستے ہیں۔

 کمپنیوں سے پانی مانگنے والے غائب کیے جاتے ہیں کہ وہ ’قومی ترقی کے دشمن ٹھہرے‘۔ مقامی سماجی ورکر ڈاکٹر عباس علی جو کہ کئی ماہ سے غائب تھے، حال میں رہا ہو کر آئے ہیں۔ ایک سیاسی نصیر ابڑو، جو  ایک طویل عرصے سے لاپتہ تھا ’’تازہ گرفتار‘‘ ظاہر کیا گیا ہے۔  علاقے میں افواہیں یہ بھی ہیں کہ نیوکلیئر فضلہ دبانے کے لیے بھی کھیرتھر کے پہاڑوں کو استعمال کیا جا رہا ہے لیکن اس کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔