1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملک اسحاق کو رہا کر دیا جائے گا، حکام

امتیاز احمد23 دسمبر 2014

پاکستانی حکام نے کہا ہے کہ کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے رہنما ملک اسحاق کو رہا کر دیا جائے گا۔ پنجاب حکومت نے امن عامہ کے قانون کے تحت ان کی حراست میں توسیع کے لیے درخواست واپس لے لی ہے۔

https://p.dw.com/p/1E94N
Malik Ishaq
تصویر: picture-alliance/epa/R. Dar

پنجاب حکومت کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب حکومت کی طرف سے عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے جاری پالیسی میں ’بنیادی تبدیلیوں‘ کا اعلان کیا گیا ہے۔ کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی پاکستان میں اقلیتی شیعہ کمیونٹی کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث رہی ہے۔

حکومت پاکستان نے اس گروپ کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے سن دو ہزار ایک میں اسے غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ دو برس بعد سن 2003 میں امریکا نے بھی اِس گروپ کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں اور گروپوں کی فہرست میں شامل کر دیا تھا۔ رواں برس کے آغاز پر امریکی حکومت نے پاکستان کی اس کالعدم اور انتہا پسند تنظیم (LJ) کے لیڈر ملک اسحاق کو بھی عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر لیا تھا۔ کالعدم لشکر جھنگوی کے لیڈر ملک اسحاق کو سن 2011 میں سپریم کورٹ نے ٹھوس ثبوتوں کی عدم دستیابی پر رہا کر دیا تھا۔ ملک اسحاق نے دہشت گردی کے مختلف مقدمات کے تحت تقریباﹰ 14 برس جیل میں گزارے ہیں۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی نے پاکستانی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ملک اسحاق کو جمعرات کے روز رہا کیا جائے گا کیونکہ پنجاب حکومت نے امن عامہ کے قانون کے تحت ان کی حراست میں توسیع کے لیے درخواست واپس لے لی ہے۔ دوسری جانب ابھی چوبیس گھنٹے پہلے ہی پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ ملک میں پائے جانے والے فرقہ واریت کے ’کینسر‘ کا خاتمہ کر دیں گے۔ حالیہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں ہونے والی فرقہ وارانہ کارروائیوں میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ دو مرحلوں میں کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں ملٹری آپریشن کا دائرہ کار وسیع کیا جائے گا اور دوسرے مرحلے میں دیہاتوں اور شہروں میں چھپے ہوئے دشمنوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

ماضی میں لشکر جھنگوی شیعہ کمیونٹی کو نشانہ بنانے اور متعدد خونریز بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔ 2013ء میں کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے خلاف ہونے والے حملوں کی ذمہ داری بھی لشکر جھنگوی نے قبول کی تھی۔ ان حملوں میں تقریباﹰ 200 افراد مارے گئے تھے۔

پشاور میں سولہ دسمبر کو ایک اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے حکومت نے نئی پالیسی بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اسی سلسلے میں دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث افراد کی پھانسیوں پر عائد پابندی بھی اٹھا لی گئی تھی۔ ابھی تک چھ مجرموں کو سزائے موت دی بھی جا چکی ہے جبکہ حکومت آئندہ چند ہفتوں میں تقریباﹰ 500 عسکریت پسندوں کو پھانسی دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔