1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

من گھڑت خبریں، یورپ بھی پریشان

29 دسمبر 2018

دنیا بھر میں جعلی خبروں کے پھیلاؤ میں تیزی آ چکی ہے۔ یورپی بلاک خود  بھی جعلی خبروں کے نرغے میں ہے اور یورپی رہنما اس رجحان کو ختم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3Al08
USA russiche Wahlinterferenz in den Social Media (picture-alliance/AP Photo/J. Elswick)
تصویر: picture alliance/AP Photo

’’حقائق، حقائق ہی ہوتے ہیں‘‘، یہ تو بالکل واضح ہے۔ تاہم اس کے باوجود شہریوں کی جانب سے اس کی تشریح مختلف طرح سے کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ذرائع ابلاغ کے آج کل کے حالات میں حقائق بھی متنازعہ ہو چکے ہیں۔

دوسری جانب  لوگ کہتے ہیں کہ سماجی ویب سائٹس ’’معلومات‘‘ کا ذخیرہ ہیں۔ جو لوگ دروغ گوئی کو سچ ثابت کرنے کی طاقت رکھتے ہیں وہ اپنے غلط بیانات کو نئی حقیقت کے طور پر پیش بھی کر سکتے ہیں۔

USA Tageszeitung The Boston Globe
تصویر: Reuters/B. Snyder

اب یورپی یونین  بھی اس مسئلے کی وجہ سے تشویش میں مبتلا ہے۔ یورپ روس کو جعلی خبریں پھیلانے کا ایک اہم ذریعہ سمجھتا ہے اور اسے خطرہ ہے کہ وہ یورپ میں انتخابات پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ماسکو پر الزام ہے کہ اس نے برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے ریفرنڈم اور 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات کو متاثر کیا تھا۔ اس تناظر میں یورپی یونین کے حالیہ سربراہی اجلاس میں کہا گیا تھا، ’’یہ ہمارے جمہوری نظام کے لیے ایک بہت بڑی مشکل ہے۔‘‘

ابھی نومبر میں ہی یورپی یونین کے رکن ملک لتھوینیا کے’Kas Vyksta Kaun‘  نامی ایک میڈیا ہاؤس پر سائبر حملہ کیا گیا تھا۔ تب نامعلوم افراد کی جانب سے اس میڈیا ہاؤس کی ویب سائٹ پر مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا حوالہ دیتے ہوئے ایک من گھڑت خبر شائع کر دی گئی تھی۔ اس خبر کے مطابق نیٹو بیلا روس پر حملے کی تیاری کر رہا ہے۔

فرانس میں بھی ذرائع ابلاغ کے اداروں کو کچھ اسی طرح کی صورتحال کا سامنا ہے اور اسی وجہ سے قومی اسمبلی نے ابھی کچھ دن قبل ہی انتخابی مہم کے دوران جعلی خبروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے قانونی سازی کی ہے۔ تاہم صحافیوں سمیت دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں نے اس پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’’سنیسر شپ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔

یورپی یونین کو من گھڑت خبروں کے تباہ کن نتائج کا اندازہ ہو چکا ہے۔ اس سلسلے کو روکنے کے لیے مختلف تجاویز پر غور کیا جا رہا ہے۔

جعلی خبریں کیسے پہچانی جاسکتی ہیں؟