1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مودی کے بھارت میں انٹرنیٹ کی آزادی خطرے میں

17 جولائی 2021

یہ کہانی شروع ہوتی ہے فروری سے، جب امریکی پوپ اسٹار ریحانا نے اپنی ایک ٹوئٹ میں بھارتی کسانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا اور مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

https://p.dw.com/p/3wbxO
Indien Internet Shutdown
تصویر: Avishek das/ZUMA Press/Imago Images

امریکی اسٹار ریحانا کی طرف سے ایک ہی ٹوئٹ کے بعد سوشل میڈیا بالخصوص مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھارتی کسانوں سے ہمدردی ظاہر کرنے غیر ملکیوں والوں کی قطار لگ گئی۔

ان صارفین نے ریحانا کے ساتھ یک زبان ہوتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے کسانوں کے مظاہروں سے نمٹنے کے طریقہ کار کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ 

اس واقعے نے بھارتی حکومت اور ٹوئٹر کے مابین پہلے سے کشیدہ تعلقات میں مزید تناؤ پیدا کر دیا۔

اسمارٹ فونز پر افواہیں، مزید تین شہری قتل: انٹرنیٹ سروس بند

 نئی دہلی کے اصرار کے باوجود ابتدائی طور پر ٹوئٹر نے متنازعہ ٹوئٹس ڈیلیٹ نہ کیں اور مودی کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف بھی یہ کہہ کر کارروائی بھی نہیں کی کہ یہ آزادی رائے کا معاملہ ہے۔

تاہم بھارتی حکومت نے سینکڑوں تنقیدی ٹوئٹس کو بلاک کر دیا۔ بعدازاں ٹوئٹر نے بھارتی حکومت کے شدید اعتراض پر کچھ ٹوئٹس بلاک کر دیں جبکہ زیادہ تر پر سمجھوتہ نہ کیا۔ 

Indien Neu Delhi | United Hindu Front | Protest gegen Thunberg, Rihanna & Harris
امریکی اسٹار ریحانا کی طرف سے بھارتی کسانوں سے ہمدردی ظاہر کرنے کے ٹوئٹ پر مودی حکومت میں غصہ پیدا ہواتصویر: Money Sharma/AFP/Getty Images

رواں برس فروری میں رونما ہونے والے ان واقعات کے بعد سے بھارتی حکومت اور ٹوئٹر کے تعلقات ابھی تک نارمل نہیں ہو سکیں ہیں۔

متنازعہ قوانین پر چہ مگوئیاں

اسی دوران بھارتی حکومت نے انٹرنیٹ سے متعلق قوانین میں ترامیم کرتے ہوئے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس بالخصوص فیس بک اور ٹوئٹر کو براہ راست ملکی حکومت کے رحم و کرم پر لا کھڑا کیا۔

مودی حکومت کا کہنا ہے کہ نفرت انگیزی، غلط معلومات اور جھوٹی خبروں کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر یہ ترامیم ناگزیر تھیں تاہم انسانی حقوق کے کارکنان کو پریشانی لاحق ہے کہ یہ نئے قوانین کہیں سنسر شپ کا موجب بنتے ہوئے ناقدین اور حکومتی منحرفین کی آوازیں مکمل طور دبا ہی نہ دیں۔

یہ امر اہم ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما نریندر مودی کی طرف سے سن دو ہزار چودہ میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے ڈیجیٹل فریڈم سکڑتا جا رہا ہے۔

بھارت:سوشل میڈیا کے لیے نئے ضابطے،اپوزیشن برہم

 

ٹوئٹر کے دفاتر پر چھاپے

بھارتی پولیس نے ملک میں واقع ٹوئٹر کے دفاتر میں چھاپے مارے اور انڈیا میں ٹوئٹر کے چیف منیش مہیش واڑی پر الزامات عائد کیے کہ وہ نسلی منافرت اور بھارتیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

Indien Neu Delhi | United Hindu Front | Protest gegen Thunberg, Rihanna & Harris
احتجاجی کسانوں کی حمایت کرنے پر سخت گیر ہندووں نے مختلف مغربی شخصیات کے خلاف احتجاج بھی کیاتصویر: Mayank Makhija/NurPhoto/picture alliance

 مبصرین کے مطابق بھارتی حکومت اس طرح سے ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر دباؤ ڈالنے کی کوشش میں ہے۔

لامینار گلوبل ایںڈ ٹوئٹر کے شریک بانی راحیل خورشید کا خیال ہے کہ بھارت کا منصوبہ ہے کہ اس ملک میں بھی انٹر نیٹ پر اتنی پابندیاں لگا دی جائیں، جیسا کی چین میں ہے۔

بھارت میں واقع پولیٹیکس، پالیسی اینڈ گورنمنٹ نامی تھنک ٹینک کے سابق سربراہ خورشید نے مزید کہا کہ مستقبل میں بھارتی انٹر نیٹ کیسا ہو گا؟ اس بات کا تعین اس وقت ٹوئٹر کے ساتھ ہونے والے سلوک سے لگایا جا سکتا ہے۔

بڑی منڈی لیکن تشویش کا باعث

ایک بلین نفوس سے زیادہ آبادی والا ملک بھارت انٹر نیٹ بزنس کے لیے بھی ایک سونے کی چڑیا قرار دیا جاتا ہے، جہاں ایک اندازے کے مطابق سن دو ہزار پچیس تک نو سو ملین افراد کو انٹر نیٹ کی سہولت دستیاب ہو گی۔

بھارت کا انٹرنٹ شٹ ڈاؤن، جیسے ’سلیمانی ٹوپی‘

سبھی انٹر نیٹ کمپنیوں کو علم ہے کہ بھارت اس حوالے سے ایک بڑی منڈی ہے اور ہر کمپنی بھارت میں سرمایا کاری کرنے کے علاوہ صارفین کو خدمات پہنچانے کے لیے بے قرار ہے۔

قوانین ہیں کیا؟

مودی حکومت کی طرف سے متعارف کرائے گئے نئے قوانین ان کمپنیوں کے لیے باعث تشویش ہیں۔ فروری میں نافذ ہونے والے ان قوانین کا اطلاق نہ صرف سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز پر ہوتا ہے بلکہ تمام اسٹریمنگ پلیٹ فارمز اور ڈیجیٹل نیوز کی کمپنیاں بھی ممکنہ طور پر ان سے متاثر ہو سکتی ہیں۔

Indien Bauerproteste in Neu-Delhi
بھارت میں مودی حکومت کی زرعی پالیسی کے خلاف کسانوں کی احتجاجی تحریک ابھی بھی زندہ ہےتصویر: Naveen Sharma/ZUMAPRESS/picture alliance

ان قوانین کی روشنی میں اگر بھارتی حکومت ان کمپنیوں کو کہے کہ کوئی مواد غیر  قانونی ہے اور اسے اپنے پلیٹ فارم سے ہٹا دیا جائے تو ان کمپنیوں کے پاس اس حکومت کی بات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔

اس صورت میں انٹر نیٹ کمپنی کو چھتیس گھنٹوں میں مواد ہٹانا ہو گا ورنہ اس کے خلاف مجرمانہ نوعیت کا مقدمہ چلایا جائے گا۔

صارفین بھی دباؤ ڈال سکیں گے

اب صارفین بھی ان کمپنیوں کو متنازعہ مواد اپنی ویب سائٹ سے ہٹانے کی درخواست کر سکیں گے۔ کمپنیوں کو اس بات کا پابند بھی بنا دیا گیا ہے کہ وہ ایسا سٹاف مقرر کریں، جو صارفین کی شکایات کو فوری جواب دینے کے قابل ہو اور ساتھ ہی حکومتی درخواستوں کو فوری نوٹس لے۔

کشمیر میں انٹرنیٹ پر پابندی ’ڈیجیٹل اپارتھائیڈ‘

انٹر نیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر آپار گُپتا کا کہنا ہے کہ ان نئے قواعد وضوابط کے تحت انٹر نیٹ پلیٹ فارمز انتہائی آسان ہو جائے گی اور اس طرح وہ سیلف سنسر شپ کا شکار ہو جائیں گے اور حکومتی خوف کی وجہ سے آزادی رائے و صحافت سے لطف اندوز ہونے میں ناکام ہو جااے پیئیں گے۔

ع ب/ع ح (اے پی)