1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجر لڑکیاں جسم فروشی پر مجبور کی جا سکتی ہیں، آئی او ایم

عاطف بلوچ، روئٹرز
22 جولائی 2017

بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اٹلی لائی جانے والی نائجیریا کی ہزاروں مہاجر لڑکیوں کو یورپی ممالک میں جسم فروشی پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ان لڑکیوں میں متعدد کم سن ہیں۔

https://p.dw.com/p/2h0Lr
The everyday reality of refugees around the world
تصویر: Denis Bosnic

خبر رساں ادارے روئٹرز نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کے حوالے سے بتایا ہے کہ انسانوں کے اسمگلر بحیرہ روم کے ذریعے نائجیریا سے اٹلی لانے والی لڑکیوں کو جسم فروشی کرنے والے نیٹ ورک کے حوالے کر سکتے ہیں۔ اس ادارے کے مطابق گزشتہ تین برسوں کے دوران خطرناک سمندری راستوں سے اٹلی لائے جانے والی ان لڑکیوں کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے۔

یونان میں چند پیسوں کی خاطر جسم بیچتے پاکستانی مہاجر بچے

خواتین کو جسم فروشی پر مجبور کرنے والے افغان مہاجرین گرفتار

مہاجرت کا جھانسا دے کر جسم فروشی پر مجبور کر دیا

سن 2014 میں ایسی لڑکیوں کی تعداد 1054 تھی جبکہ گزشتہ برس یہ تعداد گیارہ ہزار کے قریب نوٹ کی گئی۔ تازہ اعدادوشمار کے مطابق رواں برس جولائی تک نائجیریا سے اٹلی اسمگل کی جانے والی ان بچیوں کی تعداد تقریبا چار ہزار تک پہنچ چکی ہے۔

جرمنی ميں جسم فروشی پر مجبور مرد پناہ گزين

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے آئی او ایم کے ایک محتاط اندازے کے مطابق نائجیریا سے اٹلی لائے جانے والی لڑکیوں میں سے 80 فیصد سیکس ورکر بنائے جانے کے خدشے کا شکار ہیں۔

اٹلی پہنچنے کے بعد ان لڑکیوں سے انٹرویو کیا گیا تو متعدد کا کہنا تھا کہ انہیں مفت میں ہی یورپ پہنچایا گیا ہے۔

روم میں موجود آئی او ایم کے ترجمان فلاویو ڈی جاکومو نے جمعے کی شام ٹیلی فون پر ہونے والی ایک پریس بریفنگ میں جنیوا میں موجود سفارتکاروں کو بتایا، ’’یہ لڑکیاں، جن میں سے زیادہ تر کم سن ہیں، جسم فروشی کی خاطر یورپ لائی جاتی ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ انسانوں کے اسمگلر انہیں ایک اچھی زندگی کا جھانسہ دے کر اٹلی لاتے ہیں اور پھر انہیں روم کی سڑکوں پر جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔

فلاویو ڈی جاکومو کے مطابق کبھی کبھار ان لڑکیوں کا جنسی استحصال کرنے کی خاطر انہیں دیگر یورپی ممالک بھی بھیج دیا جاتا ہے، جن میں اسپین، جرمنی، فرانس اور آسٹریا بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسمگل کی جانے والی ان کم سن بچیوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ جسم فروشی یا سیکس کیا چیز ہوتی ہے۔ ان نو عمر بچیوں کا خیال ہوتا ہے کہ غالبا یورپ پہنچ کر انہیں بہتر زندگی بسر کرنے کا موقع مل جائے گا۔

بہتر زندگی کے خواب کی بھیانک تعبیر

جنسی غلامی کی خاطر انتالیس افریقی خواتین کو یورپ لایا گیا

فلاویو ڈی جاکومو کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیم اٹلی اسمگل کی جانے والی ان لڑکیوں کو ایسے خطرات اور ان کے حقوق سے باخبر کر ری ہے تاکہ وہ کسی مشکل سے بچنے کی خاطر پہلے سے ہی منصوبہ بندی کر سکیں۔ گزشتہ برس جسم فروشی کروانے والے ایسے نیٹ ورکس سے فرار ہونے والی 425 لڑکیوں نے پولیس سے رابطہ کیا تھا۔