1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میسوت اوزل نے جرمن ٹیم کو خیرباد کہہ دیا

23 جولائی 2018

اسٹار جرمن کھلاڑی میسوت اوزل نے جرمنی کی قومی فٹ بال ٹیم کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ ترک صدر سے ملاقات اور جرمنی کے فیفا ورلڈ کپ 2018 سے ابتدائی اخراج پر اوزل کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔

https://p.dw.com/p/31tw8
WM 2018 Deutschland Südkorea Mesut Özil
تصویر: picture-alliance/Photoshot/L. Ga

ترک نژاد مسلم جرمن فٹ بالر میسوت اوزل نے جرمنی کی قومی فٹ بال ٹیم کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ مئی میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ ملاقات اور فیفا ورلڈ کپ 2018 میں گروپ اسٹیج میں ہی جرمن ٹیم کی شکست کے بعد سے اوزل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ تاہم وہ اب تک خاموش ہی تھے۔

تاہم اتوار کے دن انہوں نے ایک مفصل بیان جاری کیا اور کہا کہ جرمنی کی قومی ٹیم سے نہیں کھیلیں گے کیونکہ انہیں اپنے ترک پس منظر کی وجہ سے انہیں ’نسل پرستی اور بے عزتی‘ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ فٹ بال کی دنیا میں حالیہ عرصے کے دوران کسی بھی کھلاڑی نے نسل پرستی کے حوالے سے اتنا زیادہ سخت بیان جاری نہیں کیا ہے۔

انگلش کلب آرسنل کی نمائندگی کرنے والے انتیس سالہ اوزل نے جرمن فٹ بال فیڈریشن DFB کے صدر رائنہارٹ گرنڈل کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ ’گرنڈل اور ان کے حامیوں کی نظر میں جب ہم جیتیں تو میں جرمن ہوں اور جب ہاریں تو میں تارک وطن‘۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ عالمی کپ میں جرمن ٹیم اور ڈی ایف بی کی ناکامی پر انہیں ’قربانی کا بکرا‘ نہ بنایا جائے۔

جرمنی کے لیے بانوے میچوں میں پچیس گول کرنے والے اسٹار مڈ فیلڈر اوزل نے مزید کہا، ’’ لگتا ہے کہ میری ضرورت نہیں رہی۔ سن دو ہزار نو میں جرمنی کی قومی ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے جو کامیابیاں میں نے حاصل کی ہیں، مجھے احساس ہوتا ہے کہ انہیں بھلا دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ سن دو ہزار چودہ میں عالمی کپ جیتنے والی جرمن ٹیم میں اوزل کا کردار نمایاں تھا اور تب سب ناقدین نے اس کا اعتراف بھی کیا تھا۔

اوزل نے لکھا، ’’جو میں برداشت نہیں کر سکتا، وہ یہ بات ہے کہ تمام ٹیم کی بری کارکردگی کا ذمہ دار مجھے قرار دیا جائے‘‘۔ میڈیا اور کئی حلقوں کی طرف سے شدید تنقید کے جواب میں اوزل کا مزید کہنا تھا، ’’وہ میری کارکردگی کو تنقید کا نشانہ نہیں بنا رہے بلکہ وہ صرف میرے ترک پس منظر کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔‘‘

ع ب / ص ح / خبر رساں ادارے