1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میونخ سکیورٹی کانفرنس: میزبان ملک سے توقعات

کشور مصطفیٰ6 فروری 2015

.میونخ سکیورٹی کانفرنس میں 20 ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت متعدد موضوعات پر بات چیت کریں گے تاہم یوکرائن کے بحران اور مشرق وسطیٰ میں آئی ایس کی بپا کی ہوئی جنگ کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔

https://p.dw.com/p/1EWXk
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Hase

جنوبی جرمن صوبے باویریا کے دارالحکومت میونخ میں آج سے ’سکیورٹی کانفرنس‘ شروع ہو رہی ہے جو اتوار تک جاری رہے گی۔ اس بار اس سالانہ کانفرنس کا اجلاس ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ایک جانب مشرقی یورپی ملک یوکرائن کے مسلح تنازعے میں مسلسل شدت پیدا ہو رہی ہے اور دوسری جانب مشرق وسطیٰ میں اسلامک اسٹیٹ کی بپا کی ہوئی جنگ بین الاقوامی برادری کے لیے سنگین تشویش کا سبب بنی ہوئی ہے۔ 400 سیاستدان اور ماہرین اس بار کی سلامتی کانفرنس میں ان تنازعات کے ممکنہ حل کے بارے میں تبادلہٴ خیال کریں گریں گے۔

میونخ کی سکیورٹی کانفرنس کے سربراہ وولفگانگ ایشنگر اس کے آغاز سے پہلے ہی ڈوئچے ویلے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہہ چُکے ہیں کہ اس بار کا ایجنڈا یوکرائن کے بحران کی وجہ سے طے شُدہ ہے۔ ان تین روزہ مذاکرات میں ’ڈگمگاتے ہوئے موجودہ ورلڈ آرڈر‘ کے موضوع کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گی۔

Münchener Sicherheitskonferenz 2015
400 سیاستدان اور ماہرین اس بار کی سکیورٹی کانفرنس میں شریک ہو رہے ہیںتصویر: Koch/MSC

روس پر مسلسل بڑھتا ہوا دباؤ

میونخ سکیورٹی کانفرنس میں 20 ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت کے لیے بات چیت کے متعدد موضوعات ہیں۔ اس موقع پر ان ممالک کے وزرائے دفاع اور بڑی تعداد میں کانفرنس میں شریک ماہرین کو اُن موضوعات پر تبادلہٴ خیال کا موقع فراہم ہو رہا ہے جو ان دنوں بین الاقوامی سطح پر زیر بحث ہیں۔ یوکرائنی صدر پیٹرو پوروشینکو اور روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف کی اس موقع پر ہونے والی ملاقات کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ دونوں دورِ حاضر میں مغرب اور روس کے مابین نئی سرد جنگ کا سبب بننے والے یوکرائن کے تنازعے میں سب سے زیادہ متحرک حریف مانے جاتے ہیں۔

اس کانفرنس کے میزبان ملک جرمنی کی چانسلر انگیلا میرکل، فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ کے ہمراہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ آج ہی ماسکو میں ملاقات کے بعد میونخ پہنچیں گی۔ میرکل اور اولانڈ نے یوکرائن میں امن کے قیام کے لیے نئی سفارتی کوششوں کا آغاز کرتے ہوئے گزشتہ روز کییف میں صدر پیٹرو پوروشینکو سے بھی ملاقات کی تھی۔

مشرقی یوکرائن میں روس کے کردار کو سخت تنقید کا نشانہ بنانے والے ملک امریکا کے نائب صدر جو بائیڈن بھی ایک بڑے وفد کے ساتھ میونخ کانفرنس میں شریک ہو رہے ہیں۔ جو بائیڈن نے جرمن اخبار زوڈ ڈوئچے کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ، ’امریکا یوکرائن میں روس کی جارحیت کی زیادہ قیمت لگانے کے لیے بھی تیار ہے کیونکہ اس وقت پورے یورپ کی سلامتی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔

Münchener Sicherheitskonferenz 2015 Kerry Ankunft
امریکا کا بھی ایک بڑا وفد میونخ اجالاس میں حصہ لے رہا ہےتصویر: Reuters/M. Dalder

جرمنی کا کردار

جرمنی یوکرائن کے بحران کا حل تلاش کرنے کے لیے تمام تر سفارتی کوششوں میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ اس تناظر میں اس کا کردار گزشتہ میونخ سکیورٹی کانفرنس سے گہری مطابقت رکھتا ہے۔ تب جرمن وزیر خارجہ اور وزیر دفاع نے وعدہ کیا تھا کہ جرمنی عالمی تنازعات میں مزید فعال اور اہم کردار ادا کرے گا۔ تب اس سے اُن کی مراد کیا تھی، اس کا اندازہ شمالی عراق میں کُرد ’پیشمرگا‘ فورسز کو ہتھیار فراہم کرنے کے جرمنی کے فیصلے سے ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی جرمنی اُن کی فوجی تربیت میں بھی بڑھ چڑھ کر تعاون کی پیشکش کر چُکا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مُون کے نائب ژان ایلیاسن نے کہا ہے کہ جرمنی ایک گلوبل پلیئر کے نقطہٴ نگاہ سے مزید فعال کردار ادا کرسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا:’’یہ ایک خوش آئند بات ہو گی، اگر ہم افریقہ میں بھی جرمن وسائل کا استعمال دیکھ سکیں۔‘‘ ژان ایلیاسن نے مزید کہا کہ ’جرمنی روایتی طور پر کسی بھی بحران کے ہر مرحلے میں ایک اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘۔