1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مے کی میرکل سے ہنگامی ملاقات، بریگزٹ پر صلاح و مشورے

11 دسمبر 2018

بریگزٹ معاہدے پر رائے شماری مؤخر کیے جانے کے بعد منگل کو برطانوی  وزیر اعظم ٹریزا مے نے دی ہیگ، برلن اور برسلز کا ہنگامی دورہ کیا۔ مے کے اس دورے کا مقصد بریگزٹ کے معاملے پر یورپی حکام سے کچھ رعایتیں حاصل کرنا تھا۔

https://p.dw.com/p/39t55
تصویر: Getty Images/S. Gallup

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے آج منگل کو برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے کے ساتھ تقریباً ایک گھنٹے تک ملاقات کی۔ اس دوران دونوں رہنماؤں نے یورپی یونین سے برطانوی انخلاء کے موضوع پر جاری پیچیدہ بریگزٹ بحث پر صلاح و مشورے کیے۔ میرکل نے مقامی وقت کے مطابق دوپہر ایک بجے چانسلر دفتر میں مے کا استقبال کیا۔ تاہم اس دوران ہونے والی بات چیت کی تفصیلات عام نہیں کی گئی ہیں۔

یورپی حکام یہ واضح کر چکے ہیں کہ ان کی جانب سے برطانیہ کو اس معاملے میں بہترین شرائط دی گئی ہیں تاکہ اسے کابینہ سے بریگزٹ معاہدے کو منظور کروانے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔

Deutschland Flaggen vor dem Reichstag in Berlin
تصویر: Reuters/F. Bensch

برطانوی پارلیمان میں بریگزٹ ڈیل پر ووٹنگ مؤخر کرنے کے بعد مے کے دورہ یورپ کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

برطانوی پارلیمان میں وزیرا عظم ٹریزا مے کے بریگزٹ پلان پر رائے شماری اکیس جنوری سے قبل کر لی جائے گی۔ برطانوی وزیر اعظم کے ایک ترجمان نے منگل کے دن بتایا کہ رائے شماری کے اس عمل سے قبل وہ اپنے یورپی ساتھیوں کی اضافی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہیں۔

 

ابھی تک یورپی یونین برطانیہ کے ساتھ بریگزٹ کے موضوع پر نئے مذاکراتی عمل کو مسترد کر رہی ہے۔ تاہم مے کی خاص طور پر کوشش ہے کہ آئرلینڈ اور شمالی آئرلینڈ کی مشترکہ سرحد کے حوالے سے مزید رعایت حاصل کر لی جائے۔

برطانوی وزیر اعظم نے جرمنی پہنچنے سے قبل ہالینڈ میں ڈچ وزیر اعظم مارک رٹے سے بھی ملاقات کی تھی۔ وہ یورپی کونسل کے سربراہ ڈونلڈ ٹسک سے ملنے کے بعد واپس لندن روانہ ہو گئیں۔ اس موقع پر انہوں نے یورپی کمیشن کے سربراہ ژان کلود ینکر سے بھی بریگزٹ معاہدے پر بات چیت کی۔ ہالینڈ، جرمنی اور برسلز میں اپنی ملاقاتوں کے بعد مے بدھ کو اپنی کابینہ سے ایک خصوصی ملاقات بھی کریں گی۔

تقریباً ڈھائی سال قبل برطانیہ میں بریگزٹ ریفرنڈم کا نتیجہ برلن کے لیے بھی ایک بڑے جھٹکے سے کم نہیں تھا۔ جرمن سیاسی حلقوں میں سے بہت کم ہی کو اس نتیجے کی امید تھی اور تقریباً کوئی بھی جرمن شہری یہ نہیں چاہتا تھا کہ برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہو۔

بریگزٹ: لندن کے سابق اور موجودہ میئر کے درمیان مباحثہ