1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئی ٹیسٹ ٹیوب ٹیکنالوجی سے بچے کی پیدائش

8 جولائی 2013

سائنسدانوں نے ایک نئی کم خرچ جینیاتی تکنیک کی مدد سے ایک صحت مند بچے کی پیدائش کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ اس تجربے میں In Vitro fertilization یا IVF کی مدد لی گئی جو بانجھ پن کے خلاف ایک اہم طریقہ علاج ہے۔

https://p.dw.com/p/193n6
تصویر: picture alliance/dpa

اس عمل میں ایک بیضے کو نطفے کی مدد سے انسانی جسم سے باہر ایک لیبارٹری میں نشوونما کے لیے رکھا جاتا ہے اور جب یہ بیضہ نشوونما پا جائے تو اسے بچے دانی میں منتقل کر کے اسے بچے کی پیدائش تک ماں کے رحم میں رہنے دیا جاتا ہے۔ یہ تجربہ ایک عرصے سے جاری ہے اور اب تک اس کے محض 30 فیصد مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ اس تجربے کی بڑے پیمانے پر ناکامی کی وجہ واضح طور پر معلوم نہیں ہو سکی ہے۔

تاہم حال ہی میں لندن میں ’یورپین سوسائٹی آف ہیومن ری پروڈکشن‘ کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں اس موضوع کے بارے میں ایک مطالعاتی جائزہ رپورٹ پیش کی گئی۔ اس کے مطابق مصنوعی طریقے سے تخم کے بیضے سے ملاپ کے اس طریقہ کار کی ناکامی کی سب سے بڑی مبینہ وجہ جینیاتی نقائص نظر آتی ہے۔

Louise Brown - das erste Retortenbaby der Welt
دنیا کے پہلے ٹیسٹ ٹیوب بچےتصویر: picture-alliance/dpa

طبی ماہرین نے جس نئے طریقہ کار کا کامیاب تجریہ کیا ہے اُسے NGS یا ’نیو جنریشن جین سیکوینسنگ‘ کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے ’نئی نسل کی ترتتیب‘ اس میں جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک پورے جینوم کی بالترتیب چھان بین کی جاتی ہے جس سے موروثی جینیاتی نقائص، کروموزومز کی معذوری یا خامی اور خلیوں کی تبدیلی کا بروقت اندازہ لگایا جاتا ہے۔

اس رپورٹ کے مصنف ’داگان ولز‘ کا تعلق آکسفورڈ بائیو میڈیکل ریسرچ سینٹر سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پُرانی کے مقابلے میں یہ نئی تکنیک کم خرچ اور کہیں زیادہ جینیاتی کوائف مہیا کرنے کی حامل ہے۔ ’داگان ولز‘ کے مطابق NGS یا ’نیو جنریشن جین سیکوینسنگ‘ میں ایک ہی سیل کے ڈی این اے سے کئی ملین ٹکڑے میسر ہوتے ہیں جنہیں پھر کمپیوٹر کے ذریعے ترتیب دیا جاتا ہے۔ ’داگان ولز‘ نے مزید بتایا کہ ابھی تک یہ طریقہ کار جینیاتی تحقیق اور تشخیص کے لیے بروئے کار لایا جاتا رہا ہے لیکن اس سے ایمبریو یا جنین کی اسکریننگ کا کام نہیں لیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا ،’ یہ تکنالوجی ہمیں بانجھ پن کے خلاف علاج اور حمل کو کامیاب بنانے میں بہت مدد گار ثابت ہوگی‘۔

Kinderwunschbehandlung an Universitätsfrauenklinik Leipzig
جرمنی کی متعدد پونیورسٹی کلینکس میں بانجھپن کے شکار والدین کے علاج کے لیے تحقیقی کام ہوتے رہتے ہیںتصویر: picture-alliance/ZB

’داگان ولز‘ اُس وقت تک ناقص جینز کا تجریہ اپنی لیبارٹری میں کرتے رہے جب تک وہ اس کی مکمل درستگی کے بار ے میں مطمئین نہیں ہو گئے۔ اُس کے بعد انہوں نے In Vitro fertilization یا IVF کی مدد سے بچے کی پیدائش کی کوششوں میں مصروف دو جوڑوں پر اسے آزمایا۔ ان ماؤں کی عمریں 35 اور 39 سال بتائی جاتی ہے اور ان میں سے ایک ماضی میں اپنا حمل ضایع کر چُکی ہے۔ محققین نے ان دونوں خواتین میں ایک ایک جین منتقل کیا اور اس تجربے کی کامیابی سے دونوں حاملہ ہو گئیں۔ ایک خاتون گزشتہ ماہ جون میں امریکی ریاست پینسلوینیا میں ایک بیٹے کو جنم دے چُکی ہے جبکہ دوسری کے ہاں جلد ہی یہ خوشی آنے والی ہے۔