1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئے ناول’سب مِشن‘ میں فرانس پر مسلمان انتہا پسندوں کی حکومت

عابد حسین5 جنوری 2015

فرانس کے مشہور ناول نگار مشیل ویل بیک کا نیا ناول اشاعت سے قبل ہی مقبول ہو گیا ہے۔ ناقدین، دانشور اور ادباء نے اِس ناول کو ایک شاندار کاوش قرار دینا شروع کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1EFKB
Symbolbild Europa Angriff ISIS Vorbereitungen
تصویر: Lionel Bonaventure/AFP/Getty Images

ناول سب مِشن (Submission) کا فرانسیسی نام سُومِسیوں (Soumission) ہے۔ اِس کا انگریزی متبادل سبمِشن ہے۔ ناقدین اور دانشوروں کے مطابق رواں برس کے پہلے مہینے کے پہلے ہفتے میں ایک انتہائی تہلکہ خیز ناول اپنے چونکا دینے والے پلاٹ کے ساتھ قارئین کو اپنی گرفت میں لینے والا ہے۔ ناول کا زمانہ اب سے سات برس بعد یعنی سن 2022 کا ہے اور فرانس میں ایک مسلمان انتہا پسند حکومت انتخابات جیت کر بر سر اقتدار آ گئی ہے۔ اِس حکومت نےسوربوں یونیورسٹی کا نام تبدیل کر کے پیرس سوربوں اسلامک یونیورسٹی کر دیا ہے۔ خواتین نے مغربی جامے چھوڑ کر حجاب کو اپنا لیا ہے اور یونیورسٹی کے غیر مسلم اساتذہ کو مذہب کی تبدیلی کا سامنا ہے۔

Houellebecq
فرانس کے مشہور ناول نگار مشیل ویل بیکتصویر: dpa

سبمِشن ناول کے خالق مشیل ویلبیک (Michel Houellebecq ) ہیں۔ ویل بیک فرانس کے انتہائی مقبول ناول نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں اور ان کی عالمی شناخت کی وجہ اُن کے ناولوں کے تراجم ہیں۔ سبمِشن اُن کا چھٹا ناول ہے۔ وہ چھپن برس کے ہیں اور سن 2001 میں مذہب اسلام کے بارے میں وہ متنازعہ خیالات کا بھی اظہار کر چکے ہیں۔ سن 2010 میں انہیں فرانس کا سب سے معتبر اور اعلیٰ ترین ادبی انعام گَوں کُور (Goncourt) سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ اُن کے نئے ناول سب مِشن کی چوری شدہ اشاعت آن لائن ہو چکی ہے۔

مشیل ویلبیک نے اپنے نئے ناول سبمِشن میں ایک پلاٹ تخلیق کیا ہے اور اُس کے مطابق سن 2022 میں فرانس کے صدارتی الیکشن میں انتہا پسندانہ رجحانات کی مسلمان سیاسی جماعت اخوان المسمون پارٹی انتہائی قدامت پسند خیالات کی سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ کو شکست دے کر برسراقتدار آ جاتی ہے۔ ناول کے مطابق مسلمان سیاسی جماعت کے لیڈر محمد بن عباس کو صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ اِس ناول میں ویلبیک نے اِس حکومت سازی کے دوران ہونے والے اقدامات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

Michel Houellebecq
مشیل ویلبیک کو سن 2010 میں فرانس کے سب سے معتبر اور اعلیٰ ترین ادبی انعام گَوں کُور سے بھی نوازا جا چکا ہےتصویر: dpa

ان کا اپنے اِس ناول کے بارے میں کہنا ہے کہ وہ اِس کو ایک اشتعال انگیز کاوش خیال نہیں کرتے۔ ویلبیک کے مطابق بنیادی طور پر یہ پلاٹ صداقت اور حقیقت کے قریب نہیں لیکن یہ کیفیت کئی فرانسیسیوں کے حواس پر چھائی ہوئی ہے۔ اپنے ناول کے مرکزی کردار محمد بن عباس کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا ذہین شخص فرانسیسی سیاسی منظر پر نمودار ہو جاتا ہے تو اُس میں ابھی بہت دیر ہے اور اگلے سات برسوں میں یہ ممکن نہیں بلکہ کئی دہائیاں درکار ہیں۔

ویلبیک کے ناورل پر فرانس بھر میں بحث و تمحیص کا سلسلہ شروع ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی فرانس ہی میں ہے۔ یورپ میں اسلام کے ایکسپرٹ اور استاد فرانک فریگوسی کا کہنا ہے کہ اِس ناول میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ مصنف اور معاشرے میں پائے جانے والے خوف کا اظہار ہے۔ فریگوسی کے مطابق بعض مصنفین اور مدیران اِس مسلمان آبادی کے استحصال کے بجائے اُن کے احساسات کو ٹھنڈا کرنے کے بارے میں عملی طور پر سوچیں۔ فریگوسی کے مطابق اسلام کے خلای سماجی خدشات پیدا کر کے اِس مذہب کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ بائیں بازو کے اخبار لبریشن کے چیف ایڈیٹر لاراں ژوفریں (Laurent Joffrin) کا خیال ہے کہ یہ ناول اُس سیاسی صورت حال کا سنگ میل بنے گا جس میں انتہا پسند رجحانات اعلیٰ ادب میں سرایت کر گئے ہیں۔