1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نائجیریا: بوکوحرام کے بعد انتہا پسند شیعوں کی مسلح تحریک

عابد حسین19 دسمبر 2015

افریقی ملک نائجیریا میں حکومت ابھی تک انتہا پسند مسلح گروپ بوکوحرام کو کنٹرول کرنے کی کوششوں میں ہے۔ اسی دوران اب فوج اور بنیاد پرست شیعوں کے درمیان مسلح جھڑپیں شروع ہو گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HQQs
زاریا کی شیعہ آبادی ماضی میں خود کُش حملوں کا نشانہ بھی بنائی گئیتصویر: picture-alliance/dpa/Stringer

نائجیریا کے شمالی شہر زاریا میں انتہا پسند شیعوں اور حکومتی فوج کے درمیان جھڑپیں رپورٹ کی گئی ہیں۔ ان جھڑپوں میں ہلاکتوں کی حتمی تعداد کے بارے میں کوئی تفصیل جاری نہیں کی گئی لیکن درجنوں کٹر عقیدے کے شیعوں کی ہلاکت کا بتایا گیا ہے۔ ہلاک ہونے والے مسلح شیعہ عسکریت پسندوں کا تعلق اسلامک موومنٹ برائے نائجیریا (IMN) سے ہے۔ گزشتہ ہفتے ان جھڑپوں میں ایک مسجد کو مسمار کرنے کے علاوہ اِس مسلح تحریک کے سربراہ کے گھر کو بھی تباہ کر دیا گیا تھا۔ یہ جھڑپیں دو دن تک جاری رہیں تھی۔ فوج کی جانب سے یہ کارروائی ملکی فوج کے سربراہ کو ہلاک کرنے کی ناکام کوشش کے بعد شروع کی گئی تھی۔

شدت پسند شیعہ تنظیم اسلامک موومنٹ برائے نائجیریا کا سربراہ ابراہیم یعقوب الذاکذکی ہیں۔ اُنہیں زاریا کی جھڑپوں میں شدید زخمی ہونے کے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا۔ انہی جھڑپوں میں فوج نے اُن کے نائب کو فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک کر دیا تھا۔ ذاکذکی کی بیوی کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے اور اُن کی حراست کے دوران ہلاک ہونے کی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں۔ انہی کے تناظر میں فوج نے ذاکذکی کی بیوی کے ہلاک ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ زندہ ہے۔

Karte Nigeria Zaria Englisch/Deutsch

نائجیریا کے مسلمانوں کی سب سے مقتدر ترین شخصیت سلطان آف سوکوٹو نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ اسلامک موومنٹ برائے نائجیریا کے حوالے سے صبر و تحمل سے کام لے۔ الحاجی محمد سعد ابوبکر نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اگر وہ برداشت کا مظاہرہ نہیں کرے گی تو ایک اور ’بوکو حرام ‘ جیسی شدت پسند تنظیم کھڑی ہو جائے گی۔ انہوں نے اپنے بیان میں حکومت کو تلقین کی ہے کہ ماضی میں رونما ہونے والے واقعات کے اثرات سے نائجیرین معاشرہ ابھی نکلا نہیں ہے اور ایسے میں سابقہ واقعات سے سبق لیتے ہوئے احتیاط کا مظاہرہ ضروری ہے۔ ان کا اشارہ سن 2009 میں بوکوحرام کے ابتدائی ایام میں حکومت کے تادیبی اقدامت کی جانب تھا۔

ذاکذکی نے اسلامک موومنٹ برائے نائجیریا کو سن 1980 کی دہائی میں قائم کیا تھا۔ یہ تنظیم نائجیرین سکیورٹی اور انٹیلیجنس کی نگرانی میں رہی۔ عسکریت پسندی کی جانب مائل ہوتی یہ تنظیم نائجیریا میں ایک آزاد شیعہ ریاست کے قیام کی دعویدار ہے۔ ذاکذکی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک پرجوش مبلغ و مقرر تھا اور وہ اپنی تقاریر میں اکثر کہتا تھا کہ نائجیریا کی حکومت ’چوروں‘ کے ہاتھ میں ہے۔ افریقی معاملات کے نمایاں تجزیہ نگار مالٹے لیورشیڈٹ کا کہنا ہے کہ نائجیریا کے سیکولر حکام کی پالیسیوں نے مذہبی نوجوانوں میں دین کی طرف مائل ہونے کے رجحانات کو فروغ دیا اور اِس باعث انہیں مذہبی جماعتوں کے قائم کردہ سماجی ڈھانچے میں متحرک ہونے کا موقعہ حاصل ہوا جبکہ حکومت ایسا کرنے میں ناکام رہی۔ لیورشڈٹ کے مطابق دنیا کی دوسری شیعہ تحریکوں کی طرح نائجیریا کی اسلامک موومنٹ کو بھی ایران کی سیاسی و مالی مدد حاصل ہے۔

نائجیریا میں سینکڑوں شیعہ مسلمانوں کے قتل کے خلاف گزشتہ روز ایرانی دارالحکومت میں ایک بڑی احتجاجی ریلی بھی نکالی گئی تھی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق خدشہ ہے کہ دو طرفہ لڑائی میں ایک ہزار تک افراد مارے گئے ہیں۔ نائجیریا کی فوج کے مطابق انہوں نے یہ اقدام اس لیے اٹھایا کہ اس گروپ نے آرمی چیف کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔