1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نواز شریف کا مودی کو مبارکباد کا پیغام

شکور رحیم، اسلام آباد16 مئی 2014

پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے بھارتی انتخابات میں کامیابی پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزارت عظمٰی کے امیدوار نریندر مودی کو ٹیلیفون پر مبارکباد دی ہے۔ یہ بات دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے ایک مختصر بیان میں کہی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1C1I6
پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے بھی نریندر مودی ہی کی طرح ملک کی اقتصادی ترقی کو ترجیح دے رکھی ہے
پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے بھی نریندر مودی ہی کی طرح ملک کی اقتصادی ترقی کو ترجیح دے رکھی ہےتصویر: picture alliance/AP Photo

دفتر خارجہ کے مطابق نواز شریف نے مودی کو بی جے پی کی متاثرکن فتح پر مبارکباد دیتے ہوئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کے انتخابی نتائج کا اعلان ہونے کے فوری بعد پاکستانی وزیرا اعظم کا نریندر مودی سے ٹیلی فون پر رابطہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ وہ بھارت کی نئی حکومت کے ساتھ بہتر اور قریبی تعلقات استوار کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم بھارتی انتخابات سے قبل متعدد بار کہہ چکے تھے کہ وہ نئی بھارتی حکومت کے ساتھ اچھے پڑوسیوں والے تعلقات رکھنے کے خواہشمند ہیں۔

نئی دہلی میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر اور تجزیہ کار منور سعید بھٹی کا کہنا ہے کہ نریندر مودی بھی یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کا آغاز وہیں سے کرنا چاہیں گے، جہاں 1999ء میں بی جے پی حکومت نے چھوڑے تھے۔

نریندر مودی نے اپنی جماعت کی کامیابی کے اعلان کے بعد عوام کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’اچھے دن آنے والے ہیں‘
نریندر مودی نے اپنی جماعت کی کامیابی کے اعلان کے بعد عوام کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’اچھے دن آنے والے ہیں‘تصویر: Reuters

منور سعید بھٹی نے کہا:"پہلے بھی جب بے جے پی کی حکومت تھی تو اگر آپ کو یاد ہو تو یہاں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اور انہوں نے ایک عمل شروع کیا تھا۔ الیکشن کے گرم ماحول میں بہت ساری باتیں ہوتی ہیں، توقع یہی کی جاتی ہے کہ جب وہاں دوبارہ بی جے پی کی حکومت ہو گی اور یہاں مسلم لیگ کی حکومت ہے اور وزیر اعظم پہلے ہی بھارت کو کئی بار اچھی پیشکش کر چکے ہیں تو ممکن ہے کہ ہم واپس 1999ء سے شروع کریں۔"

پاکستان میں عمومی طور پر ماضی کی نسبت اس مرتبہ بھارتی انتخابات کے نتائج میں غیر معمولی دلچپبی لی گئی۔ اس دلچسپی کی ایک بڑی وجہ بی جے پی کی جانب سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے لیے سخت گیر ہندو راہنما اور مسلمانوں کے مخالف سمھجے جانے والے نریندر مودی کے نام کا اعلان تھا۔

حکمران جماعت مسلم لیگ (ن)کے رہنما سینیٹر مشاہد ا للہ کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ وزیراعظم نواز شریف کے خیرسگالی کے جذبات کا مثبت جواب دیں۔ انہوں نے کہا کہ نریندر مودی مسلمانوں کے بارے میں متعصب رویہ رکھنے کی اپنی شہرت کو بھی ختم کر سکتے ہیں۔

سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے زمانے میں بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات جس موڑ پر پہنچ گئے تھے، نریندر مودی وہیں سے سلسلے دوبارہ جوڑنے کا عندیہ دے چکے ہیں
سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے زمانے میں بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات جس موڑ پر پہنچ گئے تھے، نریندر مودی وہیں سے سلسلے دوبارہ جوڑنے کا عندیہ دے چکے ہیںتصویر: AP

سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا:"ان کو ایک غالب اکثریت کا مینڈیٹ ملا ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ جو مایوسی پھیلی ہوئی ہے اس پورے خطے میں، اس کو ختم کرنے کے لیے اپنی اناؤں اور خودی کی بانسریوں کو کچھ دیر کے لیے بند کر یں اور لوگوں کے آنسو پوچھنے کی کوشش کریں۔"

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی عوام کے لیے اقتصادی خوشحالی نریندر مودی کا سب سے اہم انتخابی نعرہ تھا جبکہ پاکستانی وزیراعظم بھی اپنے عوام کی اقتصادی بحالی کو اپنی ترجیح قرار دیتے ہیں۔ تجزیہ کار ڈاکٹر ماریہ سلطان کا کہنا ہے کہ اقتصادی تعلقات میں بہتری ہمیشہ سے دونوں جانب کی حکومتوں کی ترجیح رہی ہے لیکن ایسے کئی دیگر اہم مسائل موجود ہیں، جن کی وجہ سے اس جانب بھی قابل ذکر پیشرفت نہیں ہو سکی۔

ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا:"پاکستان اور بھارت کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہو سکتے جب تک وہ تمام مسائل حل کرنے کی سوچ نہیں اپناتے۔ یعنی ہندوستان سے جتنے بھی تعلقات ہیں، عسکری، معاشی اور سیاسی تعلقات، ان تمام تعلقات کو ایک پس منظر میں دیکھنا ہو گا۔ یہ نہیں کہ نریندر مودی سے بات کی اور وہ ختم ہو گئی۔ جب ممالک ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں، تو وہ زمینی حقائق پر کرتے ہیں۔"

خیال رہے کہ پاکستان نے گزشتہ برس دسمبر میں بھارت کو تجارت کے لیے پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کا معاملہ مؤخر کر دیا تھا۔ اس سے قبل یہ کہا جا رہا تھا کہ پاکستان بھار ت کو موسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ دینے کے بالکل قریب پہنچ گیا تھا۔ پاکستانی حکام نے بھارت کو پسندیدہ ملک کا درجہ دینے کے اعلان کو مؤخر کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی تھی کہ بھارت میں برسر اقتدار آنے والی نئی حکومت کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو مد نظر رکھ کر اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔