1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیپال: اب ’صرف خواتین کے لیے‘ بسیں بھی

امجد علی5 جنوری 2015

نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں ایسی مِنی بسیں متعارف کروائی گئی ہیں، جن میں صرف خواتین سفر کر سکیں گی۔ ’صرف خواتین کے لیے‘ مخصوص ان بسوں کا مقصد خواتین کو مردوں کے جنسی فقروں اور ’دست درازی‘ سے بچانا ہے۔

https://p.dw.com/p/1EF0q
بس میں رَش کی صورت میں بیٹھنے کی جگہ کم ہی ملتی ہے اور پھر مرد ہوں یا خواتین، اُنہیں کھڑے ہو کر سفر کرنا پڑتا ہے
بس میں رَش کی صورت میں بیٹھنے کی جگہ کم ہی ملتی ہے اور پھر مرد ہوں یا خواتین، اُنہیں کھڑے ہو کر سفر کرنا پڑتا ہےتصویر: Reuters/John Vizcaino

فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی نے یہ بات ’ویمن اونلی’ مِنی بسوں کا انتظام چلانے والے ادارے ’باگمتی فیڈریشن ٹرانسپورٹ یونین‘ کی جانب سے پیر پانچ جنوری کو بتائی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اتوار چار جنوری کو سترہ سترہ نشستوں والی چار مِنی بسیں کٹھمنڈو کی سڑکوں پر نکلیں، جن کی پیشانی پر لکھا ہوا تھا، ’صرف خواتین کے لیے‘۔

منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ بسیں صبح اور شام کو نیپالی دارالحکومت کے کلیدی روٹوں پر اُن اوقات میں سفر کریں گی، جب سڑکوں پر مسافروں کا بہت زیادہ رَش ہوتا ہے۔

نیپال میں مسافروں اور سامان سے بھری ایک بس دارالحکومت کٹھمنڈو سے نشیبی علاقوں کی جانب محوِ سفر ہے
نیپال میں مسافروں اور سامان سے بھری ایک بس دارالحکومت کٹھمنڈو سے نشیبی علاقوں کی جانب محوِ سفر ہےتصویر: DW/Wolfgang Bernert

یہ سروس ’باگمتی فیڈریشن ٹرانسپورٹ یونین‘ کے صدر بھارت نیپال نے شروع کی ہے۔ اس سروس کے اغراض و مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے اے ایف پی کو بتایا:’’دست درازی اور جنسی حملے اُن خواتین کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہیں، جو بسوں میں سفر کرتی ہیں، خاص طور پر اُن اوقات میں، جب بہت زیادہ رَش ہوتا ہے اور بسوں میں تِل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔ ہماری یہ سروس خواتین مسافروں کے سفر کی آمد و رفت کو محفوظ اور پُر سکون بنانے کی جانب ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔‘‘

سرِدست ان چار مِنی بسوں میں سے صرف ایک کی کنڈکٹر ایک خاتون ہے تاہم بھارت نیپال نے کہا، اُن کا ہدف یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ تمام بسوں کا عملہ مکمل طور پر خواتین پر مشتمل ہو۔

خاص طور پر رَش کے اوقات میں مسافر خواتین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے
خاص طور پر رَش کے اوقات میں مسافر خواتین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہےتصویر: Christophe Archambault/AFP/Getty Images

2013ء میں عالمی بینک نے نیپال میں ایک سروے کیا تھا، جس میں شریک اُنیس تا پینتیس سال کی نیپالی خواتین کی چھبیس فیصد تعداد نے یہ کہا تھا کہ ملک میں پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کے دوران وہ کسی نہ کسی شکل میں جنسی حملوں کا نشانہ بنی ہیں۔

2011ء میں مشرقی نیپال میں ا یک اکیس سالہ بودھ نن کو پانچ افراد نے اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا، جن میں بس کا ڈرائیور بھی شامل تھا۔

ہمسایہ بھارت میں اسی طرح کی جنسی جملے بازی اور دست درازیوں کی شکایات کے بعد دارالحکومت نئی دہلی کے میٹرو ریل نظام میں 2010ء میں ایسی بوگیاں متعارف کروائی گئی تھیں، جو ’صرف خواتین کے لیے‘ مخصوص تھیں۔