1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وفاقی افسر شاہی: پنجاب کے افسران کا غلبہ اور اس کے اسباب

عبدالستار، اسلام آباد
3 اپریل 2024

پاکستان کی وفاقی بیوروکریسی یا افسر شاہی میں سیکرٹریز کی مجموعی تعداد 38 ہے، جن میں سے 26 کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے۔ اس بات کا انکشاف اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی طرف سے ایک تحریری جواب کی شکل میں کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/4eOmy
پاکستانی وزارت خارجہ کی عمارت کا بیرونی منظر
تصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

پاکستان کی قومی اسمبلی میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی طرف سے یہ بھی بتایا گیا کہ سات سیکرٹریز کا تعلق دیہی  سندھ اور تین کا شہری سندھ سے ہے جب کہ دو کا خیبر پختونخوا سے ہے۔ بلوچستان سے ایک بھی وفاقی سیکرٹری نہیں ہے۔

حکومتوں کی تبدیلی: افسر شاہی کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

افسر شاہی کے لئے دوہری شہریت: پھر زیرِ بحث

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی طرف سے یہ جواب رکن قومی اسمبلی شہلا رضا کے سوال پر دیا گیا۔ ان انکشافات پر وفاقی افسر شاہی میں ایک واضح عدم توازن کا تاثر ابھر رہا ہے۔

کچھ سابق بیوروکریٹس کے مطابق حساس اداروں کی انٹیلیجنس رپورٹیں، وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار، وفاقی وزراء کی من مانیاں اور سماجی اور معاشی ترقی میں عدم توازن وہ چند وجوہات ہیں، جو اس عدم توازن کی ذمہ دار ہیں۔

پاکستان کی وفاقی پارلیمان کی عمارت
فضل اللہ قریشی کا خیال ہے کہ وزیراعظم بھی ترقیاں دیتے وقت ذاتی جان پہچان کو پیش نظر رکھتے ہیں۔تصویر: DW/S. Raheem

ملازمتیں اور کوٹہ

وفاق کی افسر شاہی کے لیے ہر سال مسابقت کے امتحانات ہوتے ہیں۔ اسلام آباد کی نووا سی ایس ایس اکیڈمی کی ویب سائٹ کے مطابق ان امتحانات کے بعد ملازمت میں پنجاب کا کوٹا 50 فیصد ہے۔ سندھ کا 19 فیصد، خیبر پختونخوا کا 11.5 فیصد ہے جبکہ بلوچستان کا چھ فیصد ہے۔ گلگت بلتستان اور سابقہ فاٹا کا کوٹا چار فیصد اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا کوٹا دو فیصد ہے۔ ان امتحانات کے بعد میرٹ پر بھرتیوں کا کوٹا سات اشاریہ پانچ فیصد ہے۔ صوبے اور علاقے کے کوٹے میں 10 فیصد خواتین اور پانچ فیصد اقلیتوں کے لیے بھی مختص ہے۔

عدم توازن کی وجوہات

سابق سیکرٹری برائے منصوبہ بندی فضل اللہ قریشی کا کہنا ہے کہ حساس اداروں کی رپورٹ اس عدم توازن کی وجوہات میں سے ایک ہے۔ فضل اللہ قریشی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''گریڈ 19 سے گریڈ 22 تک انٹیلیجنس رپورٹوں کا عمل دخل ہوتا ہے۔ ان رپورٹوں میں صرف یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ اس شخص کی ساکھ اچھی نہیں ہے یا یہ اس قابل نہیں ہے اور اس بنیاد پر اس افسر کو ترقی سے محروم کیا جا سکتا ہے۔‘‘

فضل اللہ قریشی کے مطابق ذاتی پسند ناپسند، تعلق و رشتہ داری اور جان پہچان بھی ان ترقیوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں: ''حالانکہ ایک مرکزی سلیکشن بورڈ ہوتا ہے لیکن وزیراعظم جس کو چاہے سیکرٹری بنا سکتا ہے۔‘‘

پنجاب کی زیادہ نمائندگی

فضل اللہ قریشی کا خیال ہے کہ پنجاب کی زیادہ نمائندگی اس لیے ہے کیونکہ زیادہ تر وزرائے اعظم اور وفاقی وزیروں کا تعلق پنجاب سے ہوتا ہے: ''اور ہر وزیر چاہتا ہے کہ اسے سیکرٹری جان پہچان کا ملے۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے لوگوں سے ان کی اتنی واقفیت نہیں ہوتی اور وزیراعظم بھی ترقیاں دیتے وقت ذاتی جان پہچان کو پیش نظر رکھتے ہیں۔‘‘

جاوید حنیف خان کے مطابق ذاتی پسند ناپسند کے علاوہ پنجاب  سے میرٹ پر زیادہ لوگ منتخب ہو کر آتے ہیں۔

پاکستانی پارلیمان کی عمارت اور اس پر لگا پرچم
ثمینہ وقار کے مطابق میرٹ کے سسٹم کو فروغ دینے کے علاوہ چھوٹے صوبے کے افسران کو اسلام اباد اور دوسری جگہوں پر فرائض انجام دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔تصویر: AAMIR QURESHI/AFP

پنجاب کی اکثریت لسانی مسئلہ نہیں

پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی سابق سربراہ ثمینہ وقار کا کہنا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ پنجاب کی اکثریت کی وجہ کوئی لسانی مسئلہ ہے۔ ثمینہ وقار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرا خود تعلق سندھ سے ہے اور میرے خیال میں سندھ کے زیادہ تر افسران اسلام آباد آنا نہیں چاہتے یا وہ گریڈ 18 کے بعد اسلام آباد آنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

ثمینہ وقار کے مطابق پنجاب کے افسران گریڈ 17 سے ہی وفاقی اداروں میں کام کرنا شروع کر دیتے ہیں: ''اور مختلف مقامات پر خدمات انجام دیتے ہیں اس لیے ان کی جان پہچان بھی وزیروں سے بہتر ہوتی ہے اور انہیں وفاقی افسر شاہی کے کام کی سوجھ بوجھ بھی بہت اچھی ہوتی ہے۔‘‘

توازن کیسے قائم کیا جائے؟

فضل اللہ قریشی کا کہنا ہے کہ نہ صرف وفاقی وزارتوں میں بلکہ سو سے زیادہ سرکاری اکائیوں میں بھی صوبائی کوٹہ نافذ کیا جائے اور اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔

رکن قومی اسمبلی شہلا رضا  کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو میرٹ کا اصول پیش نظر رکھنا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر کوئی کوٹے پر آ جائے اور اس کو وہ ٹیکنیکل کام نہ آئے جو کسی وزارت کے لیے ضروری ہے تو وفاقی وزیر کیسے کام کرے گا۔‘‘

ثمینہ وقار کے مطابق میرٹ کے سسٹم کو فروغ دینے کے علاوہ چھوٹے صوبے کے افسران کو اسلام اباد اور دوسری جگہوں پر فرائض انجام دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے: ''وفاقی افسر شاہی کے کئی امور کو سمجھنے کے لیے وقت لگتا ہے اس لیے اگر وہ دیر سے اسلام آباد آئیں گے، تو ترقیوں میں یقینا مسائل ہوں گے۔‘‘