1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک بھارت وزرائے اعظم ملاقات

شکور رحیم، اسلام آباد10 جولائی 2015

پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی اپنی بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے روسی شہر اوفا میں ہونے والی ملاقات پر پاکستان کے سیاسی اور سفارتی حلقوں میں ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Fw6H
تصویر: Reuters

دونوں رہنماوں کے درمیان گزشتہ سال مئی میں نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں سارک سربراہ کانفرنس کے بعد یہ پہلی براہ راست ملاقات تھی۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی سائیڈلائنز پرہونے والی اس ملاقات کے بارے میں پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات بھارت کی تجویز پر ہوئی۔ بتایا گیا ہے کہ اس ملاقات میں بھارتی وزیراعظم نے نواز شریف کی جانب سے اگلے برس اسلام آباد میں ہونے والے سارک سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے دعوت قبول کر لی۔

پاکستانی دفترِ خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے جمعرات کو پریس بریفنگ میں بتایا تھا کہ بھارتی وزیرِ اعظم کے ساتھ بات چیت کے علاوہ اس دورے پر وزیرِ اعظم نواز شریف چین، روس اور افغانستان کے سربراہان کے ساتھ بھی علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کریں گے۔

تاہم ترجمان نے اس ملاقات کے ایجنڈے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔ دونوں رہنماوں کے درمیان یہ ملاقات ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے، جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے بنگلہ دیش کی علیحدگی میں بھارتی کردار سے متعلق بیان پر پاکستان میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔

Indien Pakistan Beziehungen Amtseinführung Sandkunst
کشیدہ تعلقات کے تناظر میں دونوں رہنماؤں کی یہ ملاقات ایک مثبت پیش رفت ہےتصویر: Reuters

پاکستانی ایوان بالا سینٹ کی خارجہ کمیٹی کے سابق سربراہ سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا ہے پاکستان اور اور بھارت کے وزرائے اعظم کی ملاقات ہونا ہی بڑی خبر ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’اس وقت دونوں ملکوں میں ایک تناؤ پایا جاتا ہے اور اس کی وجہ بھارتی وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان کے پاکستان مخالف جارحانہ بیانات ہیں اس کے علاوہ پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں "را" کے ملوث ہونے کی بات اور پاک چین اقتصادی راہداری پر بھارت کی بے جا تشویش اور مخالفت بھی ایسے موضوعات ہیں جن کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان دوریاں مزید بڑھی ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے کھل کران تمام مسائل پر بات کی ہو گی اور اگر دونوں جانب سے معاملات کے حل میں سنجیدگی دکھائی گئی تو اس کے نتائج جلد سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔

دفاعی امور کے تجزیہ کار لفٹیننٹ جنرل ریٹائرد طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ خطے کی موجودہ صورتحال خصوصا افغانستان میں امن واستحکام کے لئے امریکا سمیت مغربی ممالک بھی پاک بھارت تعلقات کی بحالی کے لئے فکر مند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’وائٹ ہاوس کی طرف سے اس ملاقات کے لئے فوری طور پر خیرمقدمی بیان جاری کرنا، اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ امریکا بھی اس ملاقات میں کتنی دلچسپی رکھتا ہے اور اس کے لیے شاید اس نے درپردہ کوششیں بھی کی ہوں گی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارتی وزرائے اعظم کی ملاقات اس لئے بھی اہم ہے اس وقت پاکستان اقوام متحدہ ،امریکا اور چین کےتعاون سے افغان حکومت اور تحریک طالبان افغانستان کے درمیان مذاکرات میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے اور دو دن پہلے مری میں مذاکرات کا ایک دور بھی ہو چکا ہے۔

پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے نواز شریف اور نریندر مودی کی ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہےکہ اس سے کسی بریک تھرو کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا،’’یہ ملاقات بھی ایسی ہی تھی جیسے ماضی میں ہوتی رہی ہیں۔ان کا فائدہ اس لیے نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر،سیاچن اور سرکریک جیسے دیرینہ حل طلب مسائل جوں کے توں ہیں اور بھارت ان مسائل کو دبا کر ان پر بیٹھا رہنا چاہتا ہے، تو یہ کیسے حل ہوں گے۔ پھر مودی صاحب کا اب تک کا جو رویہ رہا ہے، وہ بھی ایسا نہیں جس سے معلوم ہو سکے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مسائل کے حل میں سنجیدہ ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ پرانے مسائل اپنی جگہ ہیں اور اب بھارت کی طرف سے پاک چین اقتصادی راہدری کی کھل کر مخالفت ایک ایسا معاملہ ہے جو پاکستان کے لئے کسی بھی قیمت پر قابل قبول نہیں ۔

خیال رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پرکشیدگی میں اضافہ کے بعد امن مذاکرات جنوری 2013 سے معطل ہیں ۔ اس وقت بھی دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر کشیدگی موجود ہے اور وقفے وقفے سے سرحد پار فائرنگ واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔