1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: ایک اور زینب کا ریپ اور قتل، سوشل میڈیا پر ردِعمل

شمشیر حیدر سوشل میڈیا
8 اکتوبر 2020

پاکستانی صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر چارسدہ میں کم سن بچی کے ریپ اور قتل کے واقعے پر سوشل میڈیا صارفین شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3jcqV
Pakistan Islamabad | Protest gegen Vergewaltigung
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed

مقامی میڈیا کے مطابق زینب نامی ڈھائی سالہ بچی رواں ہفتے بدھ کے روز لاپتا ہو گئی تھی اور جمعرات کے روز کھیتوں سے اس کی لاش ملی تھی۔

پاکستانی پولیس کے مطابق بچی کی لاش پر تشدد کے نشانات تھے اور بعد ازاں میڈیکل بورڈ نے تصدیق کی کہ کم سن بچی کو قتل سے قبل ریپ کیا گیا تھا۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے اس واقعے کا نوٹس لینے کے روایتی بیان کے ساتھ واقعے پر اپنی مایوسی اور دکھ کا اظہار بھی کیا ہے۔ انہوں نے حکام کو ہدایات جاری کیں کہ واقعے میں ملوث افراد کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے۔

پولیس اب تک آٹھ مشتبہ افراد کو حراست میں لے چکی ہے اور واقعے کی تفتیش کی جا رہی ہے۔

’ایک اور زینب کے لیے انصاف‘

پاکستان میں کم سب بچیوں کے ریپ اور قتل کے واقعات تواتر سے سامنے آتے رہتے ہیں۔ تاہم دو برس قبل قصور سے تعلق رکھنے والی زینب نامی بچی کے ریپ اور قتل کیے جانے کے واقعے پر سوشل میڈیا پر شدید ردِ عمل دکھائی دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے: موٹر وے گینگ ریپ: پیمرا کی طرف سے رپورٹنگ پر پابندی کی مذمت

سن 2018 میں پیش آنے والے اس واقعے کے بعد قومی اسمبلی سے 'زینب الرٹ بل‘ بھی منظور کیا گیا تھا، جس کا مقصد پاکستان میں کم سن بچوں کی گمشدگی اور اغوا کے معاملات پر پولیس کی فوری کارروائی یقینی بنانا تھی۔

دو برس بعد پاکستانی سوشل میڈیا پر ایک مرتبہ پھر سے 'جسٹس فار زینب ‘ٹرینڈ کر رہا ہے، جسے استعمال کرتے ہوئے اب کی مرتبہ صارفین چارسدہ سے تعلق رکھنے والی کم سن بچی زینب کے لیے انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اسی ٹرینڈ کو استعمال کرتے ہوئے کم سن بچی کی مبینہ تصاویر بھی شیئر کی جا رہی ہیں۔

ایسی ہی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے شکیل احمد آفریدی نامی صارف نے لکھا، ''دو سالہ بچی کو پتا ہے انصاف نہیں ملے گا، منہ پر ہاتھ رکھ کر اس معاشرے سے دور جانا بہتر ہے۔‘‘

ایک خاتون صارفہ نے اپنی ٹوئیٹ میں ملکی وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا، ''آپ تو بہت مصروف ہوتے ہیں اتنا درد محسوس کرنے کا وقت نہیں ہو گا آپ کے پاس لیکن میرے جیسے لوگ ذہنی مریض بن گئے ہیں اللّٰہ کی قسم اپنے گھر کے مردوں سے بھی ڈر لگتا ہےاب۔‘‘

یہ بھی پڑھیے: جنسی زیادتی، کیا چوک پر لٹکا دینا مسئلے کا حل ہے؟

ایک اور صارفہ نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا،''قیامت سی قیامت ہے۔ خان صاحب ہماری بچیوں کی حفاظت نہیں کر سکتے تو کرسی چھوڑ دو۔‘‘

ایک صارف نے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی ایک ٹوئیٹ کے جواب میں لکھا، ''جس ملک میں دو سال کی بچی کا ریپ کر کے اس کا قتل ہو وہ معاشرہ دردندہ ہے۔ حکومت پولیس ادارے سب ناکام ہیں۔ اس ملک میں ڈارک ویب پر روز بچوں کا ریپ اور قتل کر کے دکھایا جاتا ہے اور کوئی روک نہیں سکتا۔ بس حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو چور کہنے اور جلسہ کرنے میں مصروف ہیں۔‘‘

اچھا شوہر کيسے بننا ہے؟ اسکول جا کر سيکھيں