1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں اسلحے کے کارخانے پر تعیمر ہونے والی لائبریری

22 جنوری 2023

بدنام ہتھیاروں کی مارکیٹ درہ آدم خیل میں ایک کمرے سے شروع ہونے والی لائبریری بہت جلد ایک منزلہ عمارت میں منتقل ہوگئی۔ آئندہ نسل کو علم کا سرمایہ پہنچانے کا سبب بننے والی لائبریری کی دلچسپ کہانی پڑھیے۔

https://p.dw.com/p/4MO6c
Bildergalerie Pakistan Darra Adamkhel Waffenmarkt & Bücherei
تصویر: Abdul Majeed/AFP

پاکستان کے دیہی علاقوں میں لائبریریاں نایاب ہیں، اور جو چند شہری مراکز میں موجود ہیں وہ اکثر ناقص ذخیرے کا مرکز سمجھی جاتی ہیں اور کبھی کبھار استعمال ہوتی ہیں۔

 ہتھیاروں کے ڈھیر پر بنی لائبریری

درہ آدم خیل کا قصبہ انتہائی قدامت پسند قبائلی پٹی کا حصہ ہے جہاں آس پاس کے پہاڑوں میں دہائیوں سے جاری عسکریت پسندی اور منشیات کے کاروبار نے اسے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک ''وائلڈ ویسٹ‘‘ راستے کے طور پر شہرت بخشی ہے۔ درہ آدم خیل میں علم دوست انسانوں کے لیے اپنی زندگیوں میں انقلابی تبدیلی لانے کا ذریعہ بننے والی یہ لائبریری سن 2018 میں ایک تنہا پڑھنے کے کمرے کے طور پر قائم ہوئی تھی۔

محمد راج نامی ایک شخص نے اس علاقے کے مرکزی بازار میں بندوق کی سینکڑوں دکانوں میں سے ایک کے اوپر ایک کمرے میں یہلائبریری بنائی تھی۔ محمد کی عمر اب 36 سال ہے۔ وہ ایک مقامی ماہر تعلیم، ممتاز شاعر اور استاد ہے۔ وہ بندوق سازوں کی ایک طویل نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ محمد راج  کہتا ہے، ''آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے لائبریری کو ہتھیاروں کے ڈھیر پر تعمیر کیا۔ ‘‘

لائبریری منصوبے کی کامیابی

اس منصوبے نے نہایت تیزی سے ایک کمرے کی حد کو وسعت دیتے ہوئے ایک منزلہ عمارت میں منتقل کر دیا۔ اس قلیل مدت کے دوران عطیہ کی گئی زمین پر مقامی کمیونٹی کی مالی اعانت سے ایک منزلہ عمارت تعمیر ہو چکی تھی۔

Bildergalerie Pakistan Darra Adamkhel Waffenmarkt & Bücherei
نوجوان نسل اب ہتھیاروں کی بجائے تعلیم میں دلچسپی لے رہی ہےتصویر: Abdul Majeed/AFP

پلاٹ تحفے میں دینے والے خاندان کے سرپرست، 65 سالہ عرفان اللہ خان کے بقول، ''ایک وقت تھا جب ہمارے نوجوان خود کو ایک قسم کے زیورات کی طرح ہتھیاروں سے مزین کرتے تھے لیکن علم کے زیور سے آراستہ مرد کہیں زیادہ خوبصورت نظر آتے ہیں، خوبصورتی بازوؤں میں نہیں بلکہ تعلیم میں ہوتی ہے۔‘‘ عرفان اللہ خان اپنے بیٹے آفریدی کے ساتھ اپنا اس انوکھے پراجیکٹ کو مطلوبہ وقت دیتے ہیں۔

رویوں میں تبدیلی

قبائلی علاقے جو 2018 ء تک نیم خودمختار تھے اور پڑوسی صوبے خیبر پختونخوا میں ضم ہو گئے تھے، میں پاکستان کی غربت، پدرانہ اقدار، بین النسل تنازعات اور اسکولوں کی کمی کے نتیجے میں خواندگی کی شرح سب سے کم ہے۔ لیکن اب رویوں میں بتدریج تبدیلی آ رہی ہے۔

ایتھوپیا کی موبائل اونٹ لائبریریاں

ایک نرم گو 33 سالہ رضاکار لائبریرین شفیع اللہ آفریدی کا خیال ہے کہ، ''خاص طور پر نوجوان نسل کے رویے کی تبدیلی نمایاں ہے جو اب ہتھیاروں کی بجائے تعلیم میں دلچسپی لے رہی ہے ۔‘‘

آفریدی کا مزید کہنا تھا، ''جب لوگ اپنے پڑوس کے نوجوانوں کو ڈاکٹر اور انجینئر بنتا دیکھتے ہیں تو دوسرے بھی اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا شروع کر دیتے ہیں۔‘‘ آفریدی نے تین زبانوں انگریزی، اردو اور پشتو میں 4,000 ٹائٹلز پر مشتمل دستاویزات تیار کیے ہیں۔

Bildergalerie Pakistan Darra Adamkhel Waffenmarkt & Bücherei
درہ آدم خیل کی قدیمی ثقافتتصویر: Abdul Majeed/AFP

ہتھیاروں کی گھن گرج اور کتاب بینی

پس منظر میں بندوق سازی اور ہتھیاروں کی ٹیسٹنگ کا شور اور آس پاس کی زمین کی گولیوں اور بارود سے گرد آلود ماحول میں بھی مطالعے کا شوق رکھنے والے قارئین سبز چائے کے گھونٹ بھرتے جاتے ہیں اور اپنی دلچسپی کی کتاب یا مضمون وغیرہ پڑھتے اور لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ یہاں قارئین علمی دنیا کی گہرائی میں غوطے لگاتے نظر آتے ہیں۔ تاہم، آفریدی اپنی شفٹ کے دوران ''ہتھیاروں کی اجازت نہیں‘‘ کی پالیسی کو سختی سے نافذ کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

لائبریری کا منظر

ایک نوجوان اسلحے کا ڈیلر قدیمی طور پر پینٹ شدہ سالمن رنگ کیلائبریری کی عمارت  کی طرف جا رہا ہے، اپنی 47 AK طرز کی بندوق کو لائبریری کے دروازے پر چھوڑ کر  لیکن وہ اپنا ایک ہتھیار روایتی طریقے سے اپنی کمر پر باندھے ہوئے ہے۔ کتابوں کے کیڑوں کے ایک جھنڈ میں شامل ہو کر بُک شیلفس پر کتابیں تلاش کر رہا ہے۔

ٹام کلینسی، اسٹیفن کنگ اور مائیکل کرچٹن کے پھٹے ہوئے پیپر بیک نسخے کے ساتھ ساتھ، پاکستان اور بھارت کی تاریخ اور سول سروس کے داخلے کے امتحانات کے لیے گائیڈز کے نیز اسلامی تعلیمات کا ایک وسیع انتخاب بھی یہاں مطالعے کے لیے موجود ہے۔

36 سالہ بانی راج محمد اُس وقت کو یاد کر رہا ہے جب اُس نے اپنے ذاتی ذخیرے سے اس لائبریری کو آباد کرنا شروع کیا تھا۔ ''شروع میں ہماری حوصلہ شکنی ہوئی۔ لوگوں نے پوچھا، درہ آدم خیل جیسی جگہ پر کتابوں کا کیا کام؟ یہاں کون انہیں پڑھے گا؟ اب ہمارے پاس 500 سے زیادہ ممبران ہیں۔‘‘

ہمارے بچوں کی تعلیم بمقابلہ ولایتی بچوں کی تعلیم

Bildergalerie Pakistan Darra Adamkhel Waffenmarkt & Bücherei
اس لائبریری سے کم سن لڑکیاں بھی استفادہ کر رہی ہیںتصویر: Abdul Majeed/AFP

صارفین کے لیے سہولت

عام لوگوں کے لیے لائبریری کارڈ کی قیمت 150 روپے سالانہ ہے، جب کہ طلبہ 100 روپے  ادا کر کے سال بھر کی ممبر شپ لیتے ہیں اور نوجوان اسکول کی چھٹیوں کے دوران بھی لائبریری میں دکھائی دیتے ہیں۔

لائبریری کے ہر دس میں سے ایک ممبر خاتون ہے۔ یہ تعداد قبائلی علاقوں کے لیے بہت زیادہ ہے۔ جب لڑکیاں بلوغت کی سن میں پہنچ جاتی ہیں تو انہیں گھر میں محدود ہونا پڑتا ہے، وہ مخلوط ماحول میں نہیں رہ سکتیں، اس لیے ان کے گھر کے مرد ان کی طرف سے لائبریری سے کتابیں  نکلوا کر انہیں لا کر دیتے ہیں۔

اس کے باوجود، 9 سالہ طالبہ مناہل جہانگیر اور پانچ سالہ حریم سعید اسکول بریک کے دوران لائبریری میں موجود مردوں کے ساتھ مل کر کتابوں سے استفادہ کرتی ہیں۔ حریم نے شرماتے ہوئے کہا،''میری ماں کا خواب ہے کہ میں ڈاکٹر بنوں۔ اگر میں یہاں پڑھتی رہی  تو میں ماں کا خواب پورا کر سکوں گی۔‘‘

ک م/ ع آ (اے ایف پی)