1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: جنسی تعلق سے پھیلنے والی بیماریوں میں اضافہ

6 ستمبر 2018

پاکستان میں غیر محفوظ جنسی تعلقات کی وجہ سے آتشک اور سوزاک جیسی جنسی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسی بیماریوں کے پھیلنے کی بڑی وجوہات میں ’اورل اور اینل سیکس‘ کے ساتھ ساتھ طویل دورانیے کے بوسے بھی شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/34R9i
Pakistan Lahore Heera Mandi Rotlicht Bezirk
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

آتشک جیسی جنسی بیماری کے پھیلاؤ میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اضافہ ہوا ہے۔ آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کے مطابق اس بیماری کا آغاز تو ریکٹم، منہ، عضو تناسل یا پھر اندام نہانی سے ہوتا ہے لیکن یہ آہستہ آہستہ پورے جسم تک پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاکستان میں جنسی امراض کے ماہرین کے مطابق حالیہ عشرے کے دوران اس ملک میں نہ صرف آتشک بلکہ مجموعی طور پر ایس ٹی ڈی ’سیکسویل ٹرانسمیٹڈ ڈیزیز‘ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان بیماریوں میں آتشک، سوزاک، جنسی اعضاء پر خارش اور اکولہ نما جیسی بیماریاں سر فہرست ہیں۔

ایسی بیماریوں میں اضافے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے اسلام آباد میں جنسی امراض کے ماہر ڈاکٹر عظیم عالم خان کا کہنا تھا، ’’پاکستان میں بھی جنسی تعلقات کے حوالے سے لوگوں کے ایک سے زیادہ پارٹنر ہوتے ہیں اور جنسی تعلقات میں حفاظتی تدابیر کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا، جس کی وجہ سے ایسی بیماریاں پھیلتی جا رہی ہیں۔‘‘

Syphilis
تصویر: Universitätsklinikum Bochum

ان کا کہنا تھا کہ ان کے کئی مریضوں کو ایسی بیماریاں کال گرلز کے ساتھ غیر محفوظ جنسی روابط قائم کرنے سے لگی ہیں۔ انہوں نے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارے پاس ایسے مریض بھی آتے ہیں، جن کے خاندان بھر میں ایسی کوئی ایک بیماری پھیل چکی ہوتی ہے لیکن انہیں بہت دیر بعد ایسی کسی بیماری کا پتا چلتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں عموماﹰ لوگ ایسی بیماری کا کسی سے تذکرہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر عظیم کا کہنا تھا کہ اب پاکستان میں جنسی تعلقات کے حوالے سے رول ماڈل تو مغرب کو بنایا جا رہا ہے لیکن یہاں پر محفوظ جنسی تعلقات کے حوالے سے معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں، ’’مغربی ممالک میں تو شروع میں ہی بچوں کو سیکس ایجوکیشن دی جاتی ہے لیکن یہاں پر اس حوالے سے ایسی کوئی بات کرنا بھی ممنوع ہے۔‘‘

ماہرین کے مطابق پاکستان میں ایسے ڈاکٹروں کی بھی کمی ہے، جو جنسی بیماریوں کے حوالے سے اسپیشلسٹ ہوں۔ جنسی امراض کے ماہر ایک دوسرے ڈاکٹر علی کے مطابق ایسی جنسی بیماریوں کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر بھی کوئی واضح پالیسی موجود نہیں ہے اور دوسری جانب پاکستان میں مشہور ہے کہ ایسی بیماریوں کا علاج حکیم اور ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہی صحیح طریقے سے کرتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ڈاکٹر علی کا کہنا تھا، ’’ایسی بیماریاں وائرس اور بیکڑیا سے پھیلتی ہیں، ان کے لیے لیبارٹری ٹیسٹ ہونے ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر مریضوں کو اس سارے مرحلے کا علم ہی نہیں ہوتا۔‘‘

Syphilis Bakterium Treponema pallidum
ایسی بیماریاں وائرس اور بیکڑیا سے پھیلتی ہیں، ان کے لیے لیبارٹری ٹیسٹ ہونے ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر مریضوں کو اس سارے مرحلے کا علم ہی نہیں ہوتاتصویر: Imago/Science Photo Library

ڈاکٹر عظیم عالم خان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک ’سیکسویل ٹرانسمیٹڈ ڈیزیز‘ کے لیے خصوصی بجٹ رکھتے ہیں لیکن پاکستان میں ان خطرناک بیماریوں میں مسلسل اور حیران کن اضافے پر کبھی کھل کر بات ہی نہیں کی گئی اور ہر سطح پر خاموشی ہے۔

 ان کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں اس حوالے سے بروقت اقدامات نہ اٹھائے گئے اور حکومتی سطح پر آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ مناسب پالسیاں نہ اپنائی گئیں تو ایسی بیماریاں مستقبل قریب میں پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ بن سکتی ہیں۔

ڈاکٹر عظیم عالم خان کے مطابق ان کے پاس زیادہ تر مریض ایسے آتے ہیں، جو آتشک کے مرض میں مبتلاء ہوتے ہیں۔ اس بیماری کے مختلف درجے ہیں اور چوتھے مرحلے میں ان کے نقصانات ناقابل تلافی ہوتے ہیں۔ اس مرحلے میں یہ بیماری دل کی سوزش سمیت، فالج، جگر کی کارکردگی میں کمی اور دماغی تبدیلیوں کا سبب بنتی ہے۔

آتشک کو ’بیماریوں کا بندر‘ بھی قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ بندر مختلف شکلیں بنا لیتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسی جنسی بیماری کو عوامی سطح پر اہمیت نہ دینا انہیں مزید خطرناک بنا دیتا ہے۔ ان کے سدباب کے لیے تعلیم، مشاورت، تشخیص اور علاج کی مناسب سہولیات کا ہونا ضروری ہے۔