1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: خواتین ووٹرز کے لیے مؤثر اقدامات کی ضرورت

Unbreen Fatima15 اپریل 2013

پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے خواتین کا تناسب تقریباً نصف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں خواتین کی رائے کو خصوصی اہمیت حاصل رہے گی۔

https://p.dw.com/p/18GHO
تصویر: picture alliance/AP Photo

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کو ان کے حق کے استعمال میں پیش آنے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جو انتخابی فہرست جاری کی گئی ہے اس کے مطابق الیکشن 2013ء میں مجموعی طور پر آٹھ کروڑ 61 لاکھ 802 ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ ان میں چار کروڑ 85 لاکھ 92ہزار 387 مرد اور تین کروڑ 75 لاکھ 97 ہزار 415 خواتین شامل ہیں۔ خواتین کی یہ تعداد مرد ووٹرز کے مقابلے میں تقریباً ایک کروڑ 10 لاکھ کم ہے۔ تاہم نیشنل کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کی چیئر پرسن خاور ممتاز کہتی ہیں کہ اس برس گزشتہ انتخابات کی نسبت کافی زیادہ خواتین کا ووٹرز لسٹ میں اندراج ہوا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ خواتین کو شناختی کارڈ کا اجراء ہوا۔

Pakistan Frauen feiern Sieg von Präsident Asif Ali Zardari bei Wahl
’’خواتین کے ناموں کا اندارج تو ہر صوبے میں کر دیا گیا ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ کتنی خواتین پولنگ اسٹیشن تک پہنچ پاتی ہیں‘‘تصویر: AP

خاور ممتاز کے مطابق خواتین کے ناموں کا اندارج تو ہر صوبے میں کر دیا گیا ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ کتنی خواتین پولنگ اسٹیشن تک پہنچ پاتی ہیں، ’’جہاں جہاں سیاسی طور پر بے چینی پائی جاتی ہے وہاں خواتین کا نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ ملک میں ایسے علاقے جہاں سلامتی کے حوالے سے خدشات ہیں وہاں خواتین کا نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ خاص طور سے شمالی علاقہ جات جہاں لوگوں نے اعلان کیا ہے کہ الیکشن نہیں ہونے دیں گے، وہاں خواتین کا نکالنا زیادہ مشکل ہے۔ پھر کراچی میں بھی بعض علاقے ہیں جہاں امن و امان کی صورتحال بہتر نہیں۔ کراچی کے آئی جی پولیس کے مطابق کراچی میں 42 نوگو ایریاز ہیں جہاں پولیس کا اثرو رسوخ نہیں اور وہاں اکثر حالات خراب ہی رہتے ہیں۔ یہاں بھی مشکل ہے کہ خواتین گھر سے نکلیں اور ووٹ ڈالیں۔‘‘

’’بعض علاقوں میں خواتین کے ناموں کا اندارج ہونے کے باوجود انہیں ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جاتی‘‘
’’بعض علاقوں میں خواتین کے ناموں کا اندارج ہونے کے باوجود انہیں ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جاتی‘‘تصویر: AP

الیکشن کمیشن کے مطابق نئی ووٹرز لسٹوں میں پنجاب میں خواتین ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ 12 لاکھ 90 ہزار 184 ہے۔ سندھ میں خواتین ووٹرز کی تعداد ایک کروڑ 89 لاکھ 63ہزار ہے۔ شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں 52 لاکھ 57 ہزار 6 سو 24 خواتین ووٹرز رجسٹرڈ ہیں جبکہ بلوچستان میں13 لاکھ 91 ہزار 9 سو 12 رجسڑڈ ووٹر خواتین کے ناموں کا اندراج ہے۔

نیشنل کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کی چیئر پرسن خاور ممتاز کے مطابق بعض علاقوں میں خواتین کے ناموں کا اندارج ہونے کے باوجود انہیں ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جاتی، ’’ ہمارے ملک میں بعض ایسے علاقے ہیں جہاں یہ روایات ہیں کہ خواتین کو ووٹ نہیں ڈالنے دیا جائے گا۔ ان علاقوں کے لوگ خود ہی مل کر یہ فیصلہ کر لیتے ہیں۔ گزشتہ برس 16 ایسے اضلاع تھے جہاں یہ کیا گیا۔ اس بار بھی بعض جگہوں سے اطلاعت آئی ہیں، جیسے تھرپارکر کے علاقے۔ تو یہ وہ حالات ہیں جس کے باعث خواتین ووٹ کا استعمال کر ہی نہیں سکتی ہیں۔‘‘

پاکستان میں خواتین ووٹرز کی کُل تعداد تین کروڑ 75 لاکھ 97 ہزار 415 ہے
پاکستان میں خواتین ووٹرز کی کُل تعداد تین کروڑ 75 لاکھ 97 ہزار 415 ہےتصویر: AP

انتخابات میں خواتین کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو یقینی بنانے کے لیے الیکشن کمیشن نے پہلی بار یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر کسی حلقے میں خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح 10 فیصد سے کم ہو تو ایسی صورت میں وہاں دوبارہ انتخاب کروایا جائے۔ جبکہ خواتین کے لیے قائم کیے گئے پولنگ اسٹیشنوں کو بھی محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کا حکم دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے ان اقدامات کو مختلف حلقوں کی جانب سے سراہا جا رہا ہے۔

خواتین کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم Now Community کی روح رواں فرحت نے خواتین کو ووٹنگ کی طرف مائل کرنے کے لیے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا، ’’خواتین کے لیے پولنگ بوتھس کی تعداد زیادہ کی جائے گی، جن علاقوں میں خواتین کی اکثریت ہو گی وہاں پولنگ اسٹیشن زیادہ قائم کئے جائیں گے، اس کے علاوہ اگر خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا جائے گا تو یہ قابل تعزیر جُرم ہو گا جو کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ اچھا اقدام ہے۔‘‘

پاکستان میں آئندہ انتخابات کو ملک کے مستقبل کے حوالے سے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق مستقبل کا یہ اہم فیصلہ ملک کی نصف آبادی کی شرکت کے بغیر مکمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ، کراچی

ادارت: افسر اعوان