1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان سے ترک اساتذہ کی ملک بدری کی وجوہات سیاسی، ایمنسٹی

مقبول ملک
17 نومبر 2016

پاکستانی حکومت کے درجنوں ترک اساتذہ کی ملک بدری کے حکم پر شدید تنقید کی جا رہی ہے اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ نواز شریف حکومت نے یہ قدم ’سیاسی وجوہات‘ کی بنا پر اٹھایا ہے۔

https://p.dw.com/p/2SqzT
Pak-Turk Schulen in Pakistan
تصویر: DW/I.Jabeen

اسلام آباد سے جمعرات سترہ نومبر کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے دورہٴ پاکستان کے موقع پر پاکستانی حکومت کے اسی فیصلے کے خلاف ملک کے چند بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے۔

پاکستانی حکام نے کل بدھ سولہ نومبر کو تصدیق کر دی تھی کہ حکومت نے پاکستان میں کام کرنے والے پاک ترک اسکولوں کے 130 اساتذہ اور ان تعلیمی اداروں کے عملے کے دیگر ارکان کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ بیس نومبر یعنی آئندہ اتوار کے دن تک ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔ جن ترک شہریوں کو پاکستان سے چلے جانے کے لیے کہا گیا ہے، ان کی مجموعی تعداد 450 کے قریب بنتی ہے۔

Amnesty International
تصویر: picture-alliance/dpa

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ نجی شعبے میں کام کرنے والے پاک ترک انٹرنیشنل اسکولوں کے ان اساتذہ اور کارکنوں کو اس لیے پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے کہ ان کے پیچھے مبینہ طور پر امریکا میں مقیم ترک مبلغ فتح اللہ گولن اور ان کی تنظیم خدمت گروپ کا ہاتھ ہے۔

انقرہ حکومت کا الزام ہے کہ ترکی میں اس سال جولائی میں صدر ایردوآن کی انتظامیہ کے خلاف ناکام رہنے والی فوجی بغاوت مبینہ طور پر فتح اللہ گولن کے ایما پر کی گئی تھی۔

گولن اپنے خلاف اس الزام کو مسترد کرتے ہیں لیکن اسی سلسلے میں انقرہ حکومت نے امریکا سے گولن کو ملک بدر کر کے ترکی کے حوالے کیے جانے کی درخواست بھی کر رکھی ہے۔

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ پاکستان سے پاک ترک اسکولوں کے عملے کے سینکڑوں افراد کی ملک بدری کے اس حکومتی حکم پر ملکی میڈیا نے بھی کھل کر تنقید کی ہے جبکہ اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں بھی، جہاں ایسے کئی اسکول قائم ہیں، سینکڑوں مقامی طلبا و طالبات نے اس حکومتی فیصلے کے خلاف احتجاج بھی کیا۔

ملک بدری کے اس حکم کے بارے میں پاک ترک اسکولوں کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس طرح ان تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم قریب 10 ہزار تک طلبا و طالبات متاثر ہوں گے۔

Bildkombo Recep Tayyip Erdogan und Fethullah Gülen
فتح اللہ گولن، دائیں، اور ترک صدر رجب طیب ایردوآنتصویر: Links: picture-alliance/dpa/AP/Pool // Rechts: Reuters/Handout

اس بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے آج کہا کہ اسلام آباد حکومت کا ترک اساتذہ کی ملک بدری کا حکم ’سیاسی وجوہات‘ کی بنا پر کیا جانے والا ایک فیصلہ ہے، جس سے ’صرف پاکستانی بچوں‘ ہی کو نقصان پہنچے گا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جنوبی ایشیا کے لیے علاقائی ڈائریکٹر شمپا پاٹل نے آج اپنے ایک بیان میں کہا، ’’پاکستان کو جس بات کی ضرورت ہے، وہ زیادہ اسکول اور کلاس رومز ہیں، نہ کہ سیاسی وجوہات کی بنا پر کیا جانے والا ایک ایسا فیصلہ، جس کے تحت ترک حکومت کے ایماء پر پاکستان سے ماہرین تعلیم کو نکالا جا رہا ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں